ملک میں آٹے اور چینی کے حالیہ بحران پر اگرچہ ایف آئی اے کی فرانزک آڈٹ رپورٹ کا، جس میں بعض حکومتی اقدامات، برسراقتدار شخصیات اور بیورو کریٹس پر حرف زنی کی گئی، 25اپریل کو باضابطہ اعلان ہوگا مگر اسا حوالے اب تک جو معلومات منظر عام پر آئی ہیں اُن کی روشنی میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی کابینہ کے وزرا، مشیروں اور سرکاری عمال کی ذمہ داریوں میں ردو بدل اور برطرفیاں یقیناً خود احتسابی کا ایسا عمل گردانا جائے گا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس بات کا کریڈٹ بھی وزیراعظم کو ملنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ہی حکومت کے بارے میں آزادانہ انکوائری کا حکم دیا اور اب پہلی بار ایسی تحقیقاتی رپورٹ عام کی جا رہی ہے جس میں خود حکومت اور اس کے کارپردازوں کی کارکردگی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ وزیراعظم نے جن وزرا اور افسروں کی اکھاڑ بچھاڑ کی ہے ان کا تعلق ان محکموں اور اداروں سے ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی طور آٹے اور چینی کی پیداوار اور ان کے انتظام و انصرام سے ہے۔ دو کے سوا کسی وزیر یا مشیر کو فارغ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے محکمے تبدیل کئے گئے ان میں سے بھی زیادہ تر کا کہنا ہے کہ انہوں نے تبدیلی کی خود درخواست کی تھی۔ صرف ایک مشیر شہزاد ارباب اور زرعی ٹاسک فورس کے چیئرمین جہانگیر ترین کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا جبکہ بیورو کریٹس کو فی الحال او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ دو نئے وزیر سید فخر امام(فوڈ سیکورٹی) اور امین الحق (آئی ٹی) مقرر کئے گئے، پنجاب کے وزیر خوراک نے استعفیٰ دے کر خود کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں سب سے زیادہ تنقید شوگر مل مالکان کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی پر کی گئی جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر حکومت کے بعض لوگوں نے غیر معمولی ناجائز منافع کمایا۔ اس طرح کی زرتلافی تو ماضی کی حکومتیں بھی دیتی رہی ہیں جس کا مقصد برآمدات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے لیکن اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ سابق حکومتوں کی سبسڈی سے آٹے اور چینی کی قیمتیں کم ہوئیں جبکہ موجودہ حکومت کے اقدام سے ان میں اضافہ ہو گیا۔ چینی کے فی کلو نرخ 55سے 85روپے اور آٹے کے33سے55 یا اس سے بھی زیادہ ہو گئے۔ چینی برآمد بھی کی گئی جس سے حکومتی شخصیات کو مالی فائدہ ہوا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے الزام لگایا ہے کہ چینی مافیا نے عوام کے کم سے کم ایک کھرب روپے لوٹے۔ مبصرین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ وزیراعظم نے یہ جرات مندانہ قدم اس وقت کیوں نہ اٹھایا جب یہ غلط فیصلے ہو رہے تھے۔ فیصلوں کا بر وقت نوٹس لیا جاتا تو آٹے وچینی کی قلت پیدا ہوتی نہ قیمتوں میں اضافہ ہوتا۔ اس امر پر بھی لے دے ہو رہی ہے کہ ذمہ دار قرار دیے جانے والے لوگوں کے صرف محکمے بدلے گئے ہیں یا انہیں ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے جو کوئی سزا نہیں ہے لیکن یہ بات مدنظر رکھنے کی ہے کہ تحقیقاتی کمیشن 25اپریل کو جب اپنی رپورٹ جمع کرائے گا تو اس کے بعد بھی بہت کچھ ہونا ہے فوجداری کارروائیاں ہو سکتی ہیں ممکنہ طور پر گرفتاریاں بھی ہوں گی اور ایف بی آر اور ایس ای سی پی جیسے ادارے بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی انصاف کا تقاضا ہے کہ جو حضرات اعتراضات کی زد میں ہیں ان کا موقف بھی کھلے ذہن سے سنا جائے کسی کو اس وقت تک مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک اسے صفائی کا پورا موقع نہ دیا جائے۔ خود رپورٹ کے جو حصے افشا ہوئے ہیں ان کے نکات میں بھی ابہامات موجود ہیں۔ جنہیں پوری طرح جانچنا پرکھنا ضروری ہے۔ توقع ہے کہ حتمی رپورٹ پیش ہونے پر معاملے کے بعض مخفی پہلو بھی سامنے آجائیں گے۔ عدل کے تقاضے پورے ہوں گے اور آئندہ اس طرح کے بحرانوں سے بچنے کے راستے تلاش کر لئے جائیں گے۔