• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی پر حلال و پاکیزہ اور حرام غذاؤں کے اثرات

حافظ حسن عامر

ربِّ کون و مکاں، خالقِ انس و جاں ، باری تعالیٰ نے انسان کو ’’احسنِ تقویم‘‘ یعنی بہترین سانچے میں ڈھال کر ممتاز ترین مخلوق بنا کر بھیجا اور مادی اور روحانی ہر دو اعتبار سے اس کی ہدایت و رہنمائی کا انتظام فرمایا۔ اس رحیم وکریم نے انسان کی مادی و جسمانی بقاء کا انحصار غذا اور خوراک پر قائم فرمایا۔ نیز غذا کے حصول کے لیے ’’حلال‘‘ اور پاکیزہ ذرائع اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’لوگو! زمین میں جتنی حلال اور طیب(پاکیزہ) چیزیں ہیں انہیں کھائو پیو اور (دیکھو)شیطانی راہ پر نہ چلنا، (یاد رکھو) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (سورۃ البقرہ آیت ۱۶۸)

آیتِ بالا میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حلال (جائز)اور طیب (پاکیزہ) چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے اور حرام و ناجائز کے استعمال کو شیطان کی پیروی سے تعبیر فرمایا ہے،چنانچہ غذا اگر حلال اور طیّب ہوگی تو وہ نہ صرف جسمانی طور پر صحت، توانائی اور تندرستی کا باعث ہوگی بلکہ وہ غذا ذہنی سکون قلبی اطمنان اور روحانی آسودگی کا سبب بھی ہوگی اس کے برعکس رزق اگر حلال اور پاکیزہ نہ ہوتو جہاں وہ مختلف جسمانی عوارض بیماریوں کی وجہ بنے گی وہاں وہ غذا طبعی انتشار، ذہنی خلفشار، روحانی اضطراب اور اخلاقی پراگندگی کا موجب بھی ہوگی،اب سوال یہ ہے کہ آخر ’’حلال‘‘ اور طیّب کی قرآنی اصطلاحات کن معانی و مفاہم سے عبارت ہیں تو واضح ہو کہ حلال عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’جائز‘ اور ’درست‘ کے ہیں اصطلاحً وہ روزی جو جائز طریقہ سے جسمانی یا ذہنی محنت کرکے اس طرح کمائی جائے کہ اس میں کسی دوسرے کا حق شامل نہ ہو ایسے ہی ’طیّب‘ بھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پاک، پاکیزہ، عمدہ ، نفیس اور پسندیدہ کے ہیں اس طرح جائز اور حلال مال سے حاصل کی ہوتی وہ پاکیزہ اور نفیس غذا جس کو شریعتِ مطہرہ نے صحیح اور درست قرار دیا ہو رزقِ حلال و طیّب کہلاتی ہے۔

طیّبات اور طیّب کی تعریف کرتے ہوئے علماء لکھتے ہیںکہ وہ پاک اور لذیذ غذا جسے طبع سلیم اور فطرتِ سلیمہ قبول کرلے اور اس کے استعمال سے طبیعت میں کراہیت اور تنفرپیدا نہ ہو اس کے بر خلاف قرآنِ کریم میں غیر حلال یعنی حرام ، ناپاک ، نجس اور اسی طرح غیرطیّب یعنی خبیث، مہلک، موذی اورزہریلی چیزوں کے استعمال کو شیطانی اور طاغوتی عمل قرار دیا گیا ہے اور دوسرے مقام پر شیطان کو کھلا دشمن قرار دیا ہے چنانچہ دشمن کی کسی ترغیب پر چلنا ہرگز عقل مندی نہیں ہے بلکہ یہ تو سب سے بڑی جہالت اور سفاہت ہے۔

قرآن کریم فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے رسولِ مکرم ﷺ کے فرائضِ منصبی بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’(اور وہ پیغمبرﷺ) ان کے لیے طیّبات (پاکیزہ) چیزوں کو حلال اور خبیث (گندی چیزوں) کو حرام قرار دیتے ہیں۔( سورۃ الاعراف آیت ۱۵۷)ایک دوسرے مقام پرفرمایاگیا، بھلا پاک و پاکیزہ اور نجس و ناپاک کیا برابر ہوسکتے ہیں۔ خواہ نجس ،ناپاک چیز تمہیں شکلاً کتنی ہی بھلی معلوم ہو، مگر یادرکھو وہ تو ناپاک ہے اور ناپاک نجس ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’(اے محمدﷺ) کہہ دیجیے خبیث اور طیّب برابر نہیں ہوسکتے گو کہ ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو،اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اے عقل مندو، تاکہ تم کامیاب ہو جائو‘‘ (سورۃ المائدہ آیت ۱۰۰)

آیت مذکورہ کے ذیل میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ناپاک چیز میں اس کے ’خبث‘ (گندگی) سے منفعت اور برکت اٹھا لی جاتی ہے جبکہ ’طیّب‘ یعنی پاک چیز میں منفعت اور برکت دونوں موجود ہوتی ہیں رزقِ حلال میں منفعت اور برکت سے مراد یہ ہے کہ وہ رزق ایسا ہو کہ اس میں مطلوبہ فوئدہ بھی ہو اور نعمت کی فراوانی بھی ہو چنانچہ اس تناظر میں کلام اللہ کی درجِ ذیل آیت نہایت اہمیت کی حامل ہے ارشادِ باری ہے،’’ (اے پیغمبر رسول اللہﷺ) لوگ آپؐ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے ، آپؐ کہہ دیجیے کہ تمام طیّبات(پاک چیزیں) تمہارے لیے حلال ہیں (سورۃ المائدہ آیت ۴)

متذکرہ بالا آیت میں باری تعالیٰ اعلان فرما رہے ہیں کہ اے حبیبِ مکرمﷺ ،آپ انہیں بتادیجیے کہ طیّبات ہی حلال ہیںیعنی کھانے کی وہ تمام چیزیں جو پاک و پاکیزہ ہیں اور ان میں فوائد اور برکات بھی موجود ہیں، وہ حلال ہیں اور انسان کی طبع سلیم اور فطرتِ سلیمہ ان غذائوں کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی سلیم فطرت لوگوں کی غذا کی مثال اصحابِ کہف کے واقعے سے سمجھی جاسکتی ہے جب تین سو سال سونے کے بعد جب یہ حضرات اللہ کے حکم سے بیدار ہوئے اور بھوک محسوس ہوئی تو اس بات کا خاص خیال رکھا کہ جو کھانا لینے شہر جائے وہ حلال اور طیّب چیزوں میں سے نہایت پاکیزہ ، نفیس، عمدہ اور لذیذ غذ(کھانا)ا تلاش کرکے لائے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’تو اب اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو ، سو وہ تحقیق کرے کہ کون ساکھانا(غذا) پاکیزہ ہے، پھر اس میں سے کچھ کھانا تمہارے لیے لے آے‘‘۔(سورۃالکہف آیت ۱۹)

آیتِ مذکورہ میں غذا کے لیے ’ازکیٰ طعاماً‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں یعنی حلال اور طیّب کھانوں میں سب سے زیادہ نفیس اور پاکیزہ رزق کی تلاش اہلِ توحید اور اہلِ حق کا ہمیشہ شعاررہا ہے کہ جب بھی وہ اپنے لیے رزق کا انتخاب کرتے ہیں تو حلال اور طیّب ہی کو تلاش کرتے ہیں، کیوں کہ رزق جس قدر حلال ہوگی اتنی ہی اعمالِ صالحہ کی توفیق ہوگی جیسا کہ باری تعالیٰ نے تمام انبیاء اور رسلُ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اے رسولو!نفیس چیزیں کھائواور نیک عمل کرو ‘‘۔ (سورۃ المومنون آیت۵۱)

مذکورہ آیت میں حق تعالیٰ نے تمام انبیاء اور رسلُ جنابِ آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک تمام پیغمبرانِ کرام کو رزقِ حلال کھانے کا حکم دیے کر دراصل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو رزقِ حلال و طیّب کے حصول کا پابند بنایا ہے۔

علاوہ ازیں،چونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت شفیق و مہربان اس لیے قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر باری تعالیٰ نے ان لوگوںکو بھی خطاب کیا ہے جو لوگ ایمان و یقین کی دولت سے بہرہ ور نہیں ، ان کو بھی حلال اور طیّب رزق کھانے کی ترغیب دی ہے اور ان سے کہا ہے کہ تم نے اگر روح و قلب کی غذا ایمان و ایقان کو فراموش کر دیا ہے مگر اپنے جسم و جان کے عافیت کے تقاضوں کو تو پامال نہ کرو اور حرام اور ناجائز کا بے دریغ استعمال کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو کیونکہ تمہارا جسم بھی اس ہی پروردگار کی امانت ہے اور مبادا کہیں شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنے جسم و جان کو اپنے روح و قلب کی طرح مجروح نہ کرلینا کیوں کہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ شیطان صرف برائی اور بے حیائی کی طرف رغب کرتا ہے جس کا انجام تباہی و بربادی کہ سوا کچھ نہیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھائو، پیو اورشیطانی راہ پر نہ چلو ،وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں‘‘ ۔(سورۃ البقرہ آیت ۱۶۸تا۱۶۹)

بعد ازاںاللہ تبارک و تعالیٰ صاحبانِ ایمان و ایقان کومخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم تو حلال اور پاکیزہ غذا کو اپنا وظیفہ زندگی بنالو اور اپنے ربّ کے شکر گزار بن کر رہواور اپنی عبادت و بندگی کا رُخ اپنے خالق ِ حقیق کی طرف رکھو ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھائو پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اگر تم خاص اس ہی کی عبادت کرتے ہو ‘‘(سورۃ البقرہ آیت ۱۷۲)

قرآنِ مجید کی مذکورہ تصریحات کے ساتھ رسول اکرمﷺ کے درجِ ذیل ارشادات آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیںجس میں آپؐ نے حرام اور مشکوک چیز سے بچنے کو دین اور عزت و آبرو کو محفوظ بنانے سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا کہ آپؐ فرمارہے تھے ’’بے شک حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں کہ نہیں جانتے انہیں بہت سے لوگ تو جس نے پرہیز کیا شبہات سے تو اس نےمحفوظ کرلیا اپنا دین اور اپنی آبرو، اور جو گرفتار ہو شبہات میں تو وہ پھنس گیاحرام میں‘‘ (بخاری و مسلم)

واضح ہو کہ طیّبات سے مراد پاکیزہ ، لذت بخش اور عمدہ چیزیں ہیںجو اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے بھی نہایت پاکیزہ ہوتی جبکہ خبائث اور مشکوک کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے حرام قرار دیا ہے کہ وہ اپنے نتائج و مابعد اثرات کے اعتبار سے نہ صرف نجس اورناپاک بلکہ زہریلی اور مہلک بھی ہوتی ہیں بلکہ خطرناک اور لاعلاج امراض کا موجب بھی ہوتی ہیں۔ جدید تحقیق کی رو سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ غذائیں جو قرآن و سنّت میں حلال اور طیّب قرار دی گئی ہیں وہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مناسب اور مفید ہیں اور خبائث حرام،ناجائز،مشکوک ، ناپاک ، نجس، زہریلی، سمّی اور پلید چیزیں یا غذائیں جن کے استعمال پر قرآن و سنّت میں سخت ممانعت اور شدید تنبیہ کی گئی ہے ان کے مضر اثرات اور نقصانات آج تحقیقِ جدیدسے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکے ہیں ۔

یاد رکھیئے آج انسان نے اپنے خالق و مالکِ حقیقی کی حرام کردہ اشیاء کا علانیہ استعمال شروع کیا تو وہ کن موذی خطرناک ، لاعلاج اور مہلک امراض کا شکار ہورہا ہے ،غور فرمائیے چین کے ووہان نامی شہر سے ایک خطرناک وائرس نے جنم لیا جس کو دنیا’ کرونا وائرس‘ کے نام سے جانتی ہے یہ مہلک، خطرناک اور موذی وائرس جو انسان کے لیے پیغامِِ موت ثابت ہوا، پوری دنیائے انسانیت کے لیے یہ وائرس خوف کی علامت بن چکا ہے ،اس وائرس کے بارے میں ابتدائی معلومات بتاتی ہیں کہ یہ چین کے شہر ووہان کی ایک مارکیٹ جو سمندری اور جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت میں مشہور ہے سے اس وائرس کا آغاز ہوا اس مارکیٹ میں زندہ جنگلی جانور کھانے کے لیے فروخت کئے جاتے ہیں، حکومت کی پابندی کے باوجود چینی باشندے یہاں سے جنگلی جانور خرید کر زندہ ہی بطورِ غذا کھا لیتے تھے، چمگادڑ، سانپ ، چوہے کا سوپ وغیرہ محبوب غذا کے بطور استعمال کرتے تھے ، چین میںوباء کی صورت اختیار کرنے والا وائرس کرونا پر تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ وائرس سانپ چمگادڑ اور چوہے جیسے جنگلی اور نجس اور ناپاک جانوروں میں پایا جاتا ہے، واللہ اعلم۔ حقائق کچھ بھی ہوں مگر یہ بات مسلمہ ہے کہ انسان کے لیے رزق کا حلال اور پاکیزہ ہونا نا گزیر ہے۔ 

جدید ٹیکنالوجی، طب کی دنیا میں ہونے والی ساری تحقیقات بے معنی ہوکر دفترِپارینہ ہوگئیں ہیں میڈیکل سائنس نے بے بس ہوکر گھٹنے ٹیک دیے تمام ویکسن ٹیکے ، دفاعی تدابیر بے اثر ہو گئی ہیں آج ڈاکٹرز، پیدامیڈیکل اسٹاف اپنی بے بسی پر آٹھ آٹھ آنسوؤں رو رہے ہیں، مگر کرونا وائرس کی وبا ہے کہ روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے دنیا کے تقریباً ۱۹۸ ممالک اس مہلک اور خطرناک وبا ء کی زد میں آچکے ہیں، غور فرمائیے آخر یہ آزمائش کی گھڑی ہم پر کیوں چھائی ہوئی ہے ، یہ دراصل انسان کی بد اعمالیوں کے نتائج و عواقب ہیں جو اس وباء کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں قرآنِ مجید میں باریِ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ خشکی اور تری میں لوگوںکی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا ہے،اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھادے بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں ‘‘(سورۃ الروم آیت ۴۱)

مذکورۃالصدر آیتِ مبارکہ میں بحروبر میں فساد کا پیش خیمہ انسان کے اعمال کو قرار دیا گیا ہے اور فساد سے مراد ہر وہ برائی اور بگاڑ ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرے انسانی آبادی کا امن و سکون تہہ و بالا ہو جاتا ہے یعنی انسان کے گناہوں بد اعمالیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے ظلم و ستم عام ہو جائے اللہ کی حدود کو پامال کیا جانے لگے قتل و غارت گری و خوں ریزی عام ہو، حرام خوری ، رشوت ستانی ، ذخیرہ اندوری، فریب دہی اور حق تلفی جیسے گناہ عام ہو جائیں تو ارضی وسماوی آفات و مصائب بطورِ تنبیہ کے نازل ہوتے ہیں مثلاً وبائی امراض، کثرتِ موت، قحط ، طوفان، سیلاب، ٹڈی دل وغیرہ ناگہانی آفات کی صورت میں مکافاتِ عمل کے بطور حق تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے جاتے ہیں تاکہ اس کے غافل بندے نادم و شرمندہ ہوکر ربِ حقیقی کی طرف رجوع ہو جائیںاور توبہ و استغفار کرکے اس کو راضی کرلیں۔

آج ہمیں اپنے گناہوں سے سچی توبہ اور کثرت سے استغفار کرنے کی ضرورت ہے ،کیوںکہ قرآنِ کریم نے مصائب و آفات اور آلام سے خلاصی کا نسخہ صرف اجتماعی توبہ کو قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پا جائو (یعنی کامیاب و کامران ہو جائو)(سورۃ النور آیت ۳۱)

اور آخر میں بارگاہ ربّ العزت میں دعا ہے کہ اے اللہ! تو اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کے صدقے ہم سب کو کرونا وائرس جیسے مہلک خطرناک اور لاعلاج مرض سے نجات عطافرما ،خصوصاً پاکستان ،بلاد اسلامیہ اور پوری دنیا کے انسانوں کو اس وبائی مرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات عطافرما اور ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرما ۔( آمین )

تازہ ترین