٭…زاہدحسین…٭
بہت مصروف تھا انسان اپنے کام دھندوں میں
نہ تھا میسر اک بھی لمحہ خدا کو یاد کرنے کا
کبھی ہوتی تھیں پارٹیاں کبھی کام کا بوجھ زیادہ تھا
کبھی ہوٹل میں کھانا تھا کبھی بچوں کو پارک گھمانا تھا
بہت مصروف تھا انساں کہ جب بھی آتی تھی صدا
حی علی الصلوةحی علی الفلاح مصروف اتنا تھا کہ اس صدا کو
سنی ان سنی کر دیتا تھا غضب تو یہ ہے کہ اذاں کا
جواب تک نہ دیتا تھا خدا کو ہی کہتا تھا
میں آنہیں سکتا کیونکہ تب بہت مصروف تھا انساں
پھر ہوا کچھ اس طرح سے اس قادر مطلق کو
یہ سرکشی نہ بھائی جو ڈور ڈھیلی چھوڑی تھی
وہ ذرا سی کَس کر دکھائی اب ہوٹل بھی بند ہیں
پارکوں میں جاتا نہیں کوئی شاپنگ کا تصور نہیں
پارٹیاں مناتا نہیں کوئی ختم کر دیا انساں کا یہ بہانہ کہ
میرے پاس وقت کی قلت ہے مقید ہیں سب گھروں میں
جو انساں رب سے دور تھا وہ اب اک دوجے سے بھی دور ہے
اب تو وقت ہی وقت ہے ذرا بتلاؤ اب اے انساںاس وقت
کتنا کھوجا ہے رب کو تو نے جو شہ رگ سے بھی پاس ہے
اس تک پہنچنے کی کوشش کتنی کی ہے تم نے
اب تو یہ بھی بہانہ نہیں کہ وقت کی کمی ہے
ذرا جھانک گریباں میں کتنا پڑھ لیا قرآن تم نے
کیا غور و فکر بھی کیا تم نے ہے یہ آفت کیوں تم پہ
یا بس واویلا مچایا ہے نہیں سر کو جھکایا ہے
ابھی بھی وقت ہے اے ناداں ذرا سوچ لے آنکھیں کھول لے
ابھی تو بس مساجد کا دروازہ بند ہوا ہے
حرم جا نہیں سکتا خاکِ مدینہ کو چھو نہیں سکتا
لیکن پھر بھی ابھی درِ توبہ کھلا ہے
وہ رب بلاتا ہے تم کو اے غافل انساں
ابھی نہ تو وقت کی کمی ہے نہ کوئی اور مجبوری ہے
جھک جاؤ در توبہ کھلا ہے کہ اب تو بہ ضروری ہے