کیا عام دنوں میں ہمارا یومیہ اجرت پر کام کرنے والامزدور خوش حال تھا؟
یا بندہ مزدور کے اوقات اقبال کے دنوں سے آج تک تلخ چلے آ رہے ہیں۔ کیا ہم بالکل ہی بھول گئے کہ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دینا چاہیئے جس کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہیں ہوتی۔ دو کروڑ کے شہر کراچی میں کم از کم بیس لاکھ افراد ایسے ہیں کہ جن کے گھر تک راشن پہنچانا ضروری ہے۔ لیکن ضلعی حکومت اپنے سارےوسائل بھی لگا دے تو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تک نہیں پہنچ سکتی ، تو پھر کیا ساڑھے اٹھارہ لاکھ افراد کو بھوکا مرنے چھوڑ دیا جائے۔
ان دنوں پوری دنیاکے ساتھ پاکستان بھی وبائی انفلوئنزا کا شکار ہےجس کا وائرس کورونا۔19کے نام سے پہچانا گیا ہے۔ وباء کی روک تھام کے لئے ہم نے لاک ڈاؤن کا سہارا لیا ہے یعنی تمام دفاتر فیکٹریاں دوکانیں اور اسکول بند۔ نہ لوگ کہیں جمع ہوں گے نہ ایک سےدوسرے کو یہ وائرس منتقل ہو سکے گا۔ لیکن لاک ڈاؤن ایک طرف تو ملکی معیشت کے لئے دھچکا ہے اور دوسری طرف روز کے روز اپنی روزی کمانے والےمزدوروں کے لئے بڑی مشکلات کا پیش خیمہ ہے، غذائی اجناس ان تک پہنچانا حکومت کے لئے لازم ہو چکا ہے ۔ کیا ہمارے پاس وافر گندم اور چینی ہے کہ ہم گھر گھر اس کو پہنچا سکیں۔آیئے گندم میں خود کفالت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1960میں جو دو الفاظ سکہ رائج الوقت تھے وہ تھے سیم و تھور اور گندم میں خود کفالت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔اگر ہماری زمینیں شور زدہ ہوتی جائیں اور زیر زمین پانی اتنا اونچا ہو کہ فصل کی جڑیں پانی میں ڈوبی ہوں تو فصل کے خراب ہونے میں کیا شبہ ہے ۔ مرے کو مارے شاہ مدار ۔ ہمارے پاس گندم پہلے ہی کم تھی خواجہ ناظم الدین کے دور میں قلت دور کرنے کے لئے امریکی گندم منگوائی جا چکی تھی ۔ دفتر کے بابؤوں نے ان اونٹوں کے گلے میں (Thank You America)کی تختی لٹکا دی تھی جو کیماڑی سے گندم لے کر شہر کراچی میں داخل ہو رہے(یہ تختی آج بھی ہمارے گلے میں لٹک رہی ہے) ۔ سو گندم کی کمی تو تھی ہی اب قابل کاشت رقبہ سیم و تھور کے باعث کم ہوتا جا رہا تھا۔گندم میں خود کفالت ایک خواب تھا جو دور دور پورا ہوتا نظر نہ آتا تھا۔
شاید کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ سندھ اور پنجاب میں جو ہمارا نہری نظام ہے یہ دنیا کے سب سے بڑے نہروں کے جال میں سے ایک ہے۔ ہمارے سب دریا پہاڑوں کے دامن سے نکلتے ہیں اور آخر کار سندھ میں مل جاتے ہیں ۔ پنجند سے لے کر بحیرہ عرب تک پانی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دریائے سندھ۔باقی تمام زمین پر اتنی کم بارشیں ہوتی ہیں کہ نہ کوئی بڑی بارانی فصل ہو سکتی ہے نہ ہی کوئی بڑے دریا بنتے ہیں ۔ اس لئے ڈیڑھ سو سال پہلے انگریز حاکم نے اپنی فوجوں کو خوراک کے لئے(اور اگر کچھ عوام کالانعام کو بھی مل جائے تو کیا مضائقہ ہے) دریائے سندھ سے نہریں کھینچ کر دور دراز میدانی علاقوں میں پہنچائیں ۔آگے چل کر ایسی نہریں بھی بنیں جو جہلم اور چناب کو ملاتی تھیںاور دو پانیوں(دوآبہ) کے درمیانی علاقے کو سیراب کرتی تھیں۔غرض نہروں کا ایک جال تھا جن کی مجموعی لمبائی چھپن(56)ہزار کلومیٹر بنتی ہے۔ جو پاکستان کے تین چوتھائی زرعی رقبے کو سیراب کر سکتی ہے۔
سو(100)سال تک ان نہروں نے پنچاب کو ہندوستان کا اناج گھربنائے رکھا۔ لیکن یہ نہریں کہیں کہیں پختہ تھیں ورنہ زیادہ تر کچی تھیں جس کے نتیجے میں پانی کی بڑی مقدار زمین میں جذب ہو جاتی تھی 1960 آتے آتے ایک بڑا زرعی رقبہWater Logged ہو چکا تھا۔یعنی زمین پر پانی کھڑا نظر آتا تھا۔ گرمی کے مہینوں میں یہ پانی بخارات بن کر اڑ جاتا، اور اپنے پیچھے نمک چھوڑ جاتا جسے شورزدہ یا کلّر لگی ہوئی زمین کہتے تھے۔
یہ تھا سیم و تھور کا مسئلہ جو پاکستان کو گُھن کی طرح کھائے جا رہا تھا۔ اور گندم میں خود کفیل ہونا ایسا ٹارگٹ تھا جس کا حصول ہماری پہنچ سے بہت دور تھا۔پھر اس کا ایک حل سوچا گیا۔ اگر ہم تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹیوب ویل لگا کر زیر زمین پانی کھینچیں اورایک نالی بنا کر اسے سمندر تک پہنچا دیں تو سطح آب نیچی ہوتی جائے گی اور کھارا پانی نکاسی کے راستوں سے سمندر جا پہنچے گا ۔ اس طرح سیم و تھور دونوں مسئلے حل ہو جائیں گے۔ یہ اسکیم واپڈا کے ہائیڈروجیالوجی سیکشن نے شروع کی اور بہت کامیاب رہی ، سینکڑوں جیالوجسٹ ان ٹیوب ویلوں پر تعینات ہوئے جو کنویں کو درست حالت میں رکھتے اور نمکین پانی کو مناسب رفتار سے کھینچتے اور بذریعہ نکاس سمندر تک پہنچا دیتے۔
دیکھتے دیکھتے ہم نے اپنا کھویا ہوا رقبہ حاصل کرنا شروع کر دیا اور گندم کی کاشت کا علاقہ بڑھنے لگا ۔ جب ایوب خان 1967 میں اپنا عشرہ ترقی منا رہے تھے تو سبز انقلاب اور گندم میں خود کفالت کا جھنڈا اونچا لہرارہا تھا۔ لیکن خود صدر ایوب کی ہوا اکھڑ چکی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں تک یہ خبر ہی نہ پہنچ سکی کہ ہم گندم میں خود کفیل ہو چکے ہیں ۔اخباروں میں جو ضمیمے سبز انقلاب اور ایوب کی کامیاب حکمتوں پر چھپتے، پر لوگ اُسے پڑھتے ہی نہ تھے بلکہ اس سے بیزار تھے(بحوالہ شہاب نامہ)۔ ایوب خاں کی حکومت کا خاتمہ صدام اور قذافی کے مقابلے میں بڑی نرمی سے ہوا لیکن ملک و قوم نے بڑی سخت سزا بھگتی اور وطن عزیز دولخت ہو کر رہا۔
ٹیوب ویل کے کامیاب تجربے کے دو نتائج نکلے۔ اول تو اس نے ناکارہ ہو جانے والی زرعی زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنا دیا۔ دوسرے گجرات اور گوجرانوالہ کے لوہاروں نے ٹیوب ویل بنانا سیکھ لیا۔ اب کوئی بھی کاشت کار ایک چھوٹی رقم سے ٹیوب ویل لگوا سکتا تھا اور پانی کی دستیابی سے بے فکر ہو سکتا تھا۔ پنجاب میں اس وقت بھی پانچ لاکھ اور سندھ میں سوا لاکھ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں اور گندم میں خود کفالت ہمیں ایک عرصے سے حاصل ہے بلکہ اکثر و بیشتر ہم اپنی ضروریات سے زیادہ گندم پیدا کرتے ہیں جو ہندوستان ، ایران اور افغانستان اسمگل ہوتی ہے۔ ہم اسے کبھی ایکسپورٹ نہیں کر پاتے کیوں کہ طاقت ور مافیا فوراً آٹے کی قلت پیدا کر دیتا ہے اور دلیل اس کی یہ دیتا ہے کہ گندم کی برآمد کی وجہ سے قلت پیدا ہوئی ۔
حالانکہ ہوتا صرف یہ ہے کہ فاضل گندم ایکسپورٹ ہو تو ڈالروں میں آمدنی سرکار کو ہو گی لیکن پھر اسمگلنگ کے لئے گندم دستیاب نہیں ہو گی ۔ جس کا ریوینیو طاقت ور افراد کی جیبوں میں جاتا ہے اور وہ رقم غیر ملکوں بینکوں یا آف شور کمپنیوں میں رکھی جاتی ہے ۔ ہماری حکومتیں اپنے مخالفین کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوتی ہیں لیکن اپنی صفوں میں موجود وہ لیڈران جو صرف مال بنانے سیاست میں آتے ہیں ان سے خوف کھاتی ہیں اور ایکسپورٹ روک دی جاتی ہے۔
ساٹھ کی دہائی سے ٹیوب ویل خوب پانی نکالتے رہے اور لاکھوں ایکڑ زمین سیراب کر رہے ہیں لیکن عرصہ پچاس سال بعد اب الٹا اثر ہوا کہ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی۔ جو کنویں سو(100)فٹ پر وافر پانی دے رہے تھے انہیں دو سو 200اور کہیں چار سو400فٹ گہرا کرنا پڑا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ 2010کے سیلاب میں جو پانی پندرہ دن تک میدانوں میں کھڑا رہا اس نے زمین میں جذب ہو کر پانی کی سطح بحال کر دی اور پچھلے پانچ برسوں سے ہم ہر سال دس لاکھ ٹن گندم اضافی پیدا کر رہے ہیں ۔2013 میں ہم نے دو کروڑ تیس لاکھ ٹن گندم پیدا کی جو 2014میں بڑھ کر دو کروڑ چالیس لاکھ ٹن ہو گئی۔2015 میں ڈھائی کروڑ ٹن اور پچھلے سال دو کروڑ چھپن لاکھ ٹن ۔ ذرا حساب تو لگائیں 22 کروڑ کی آبادی کے لئے دو کروڑ بیس لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کے حسابوں سے ہر بچہ، بوڑھا، مرد و زن کے لئے ہمارے پاس سو کلو گندم فی کس موجود ہوتی ہے اور اس کے بعد بھی چھتیس36لاکھ ٹن بچ رہتی ہے اور 5 سال سے کم عمر دو کروڑ بچے سو کلو گندم کھانے تو رہے تو بتائیے کہ پچاس لاکھ ٹن سے کیا کم گندم ایکسپورٹ کے لئے ہو گی۔
اتنی وافر گندم کی موجودگی میں ہماری حکومتوں کا کام صرف اتنا ہے کہ یہ گندم اپنے ہر شہری کو پہنچا دے۔ اس کے پاس مناسب اسٹوریج ہو کہ گندم گل سڑ کر ضائع نہ ہو یا اسے چوہے نہ کھا جائیں اور نہ ہی وہ چوہے جو سرکاری محکموں میں موجود ہیں اور جن کی اعانت سے گندم چوری ہوتی ہے اور یہ کہ گندم دور دراز کے علاقوں تک بھی پہنچے۔ تھر کا علاقہ اور چولستان خاص یاد رکھنے کی چیز ہے اور یہ بھی کہ ہر فرد کے پاس قوت خرید ہو کہ اپنے حصے کی گندم خرید سکے۔ اس وقت ہمارے وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کو دہاڑی دار مزدور یاد آ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں ان کو راشن نہ پہنچا تو یہ بےروزگار کہاں سے کھائیں گے۔ لیکن کیا عام دنوں میں ہمارا یومیہ اجرت پر کام کرنے والامزدور خوش حال تھا؟ یا بندہ مزدور کے اوقات اقبال کے دنوں سے آج تک تلخ چلے آ رہے ہیں۔ کیا ہم بالکل ہی بھول گئے کہ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دینا چاہیئے جس کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہیں ہوتی۔
لاک ڈاؤن کے دنوں میں دو کروڑ کے شہر کراچی میں کم از کم بیس لاکھ افراد ایسے ہیں کہ جن کے گھر تک راشن پہنچانا ضروری ہے۔ لیکن ضلعی حکومت اپنے سارےوسائل بھی لگا دے تو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تک نہیں پہنچ سکتی ، تو پھر کیا ساڑھے اٹھارہ لاکھ افراد کو بھوکا مرنے چھوڑ دیا جائے یا رفاحی ادارے ان تک خوراک پہنچائیں گے۔ یاد رکھئے جو کام حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں وہ فلاحی ادارے نہیں کر سکتے۔ ان کی حیثیت اس چڑیا کی سی ہے جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لے کر آتش نمرود بجھانے چلی تھی۔
گندم میں خود کفالت جو دور ایوبی میں ایک خواب تھی اس کی تعبیر مل چکی ۔ سات موٹی گائیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات بالیں ہری اور سات سوکھی۔ ہم ان ساری منزلوں سے گزر گئے اور پچاس لاکھ ٹن فاضل گندم عزیزِ مصر کے پاس تقسیم (ایکسپورٹ) کے لئے ہے پر اس کے گرد ایسی بلائیں گھوم رہی ہیں جو موٹی اور دبلی سب گایوں کو اور سوکھی اورہری سب بالیوں کو کھا جاتی ہیں اور عزیز ِمصر ہردلعزیزی کے منصب سے بے توقیری کی چوکھٹ پر کھسکتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن ان بلاؤں سے چھٹکارہ نہیں حاصل کرنا چاہتا جو گندم کے ساتھ چینی بھی چاٹ رہی ہیں۔ لیکن عزیزِ مصر فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔
کراچی شہر کی نَیا اس وباء سے پار لگانے کے لئےصوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ صرف کراچی کیوں، ہر شہر اور ہر قرئیے میں بے روزگار اور یومیہ اجرت والے موجود ہیں اور سفید پوش بے کَس بھی۔ ان کے لئے ملک میں گندم بھی ہے اور چینی بھی ۔ حکومت کو صرف حق، حق دار تک پہنچانا ہے۔ کیا موجودہ حکومت میں اتنی اہلیت بھی نہیں؟