گزشتہ ہفتہ ملتان کورونا وائرس اور احساس امداد پروگرام کی امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی منفی صورتحال کی زد میں رہا ،ان دونوں معاملات میں انتظامیہ کی غفلت اورکورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر کئی سوال اٹھے، نشتر ہسپتال جیسا بڑا طبی ادارہ خود اپنے ڈاکٹروں کو کرونا وائرس سے نہ بچا سکا، جب درجنوں ڈاکٹر کرونا وائرس کے پازیٹو کیسوں کے طور پر سامنے آئے اور حفاظتی کٹس کی عدم دستیابی کے باعث کورونا وائرس کا شکار ہوئے ،تو ڈپٹی کمشنر کو خیال آیا کہ نشتر ہسپتال کے وارڈز کی ’’ ڈس انفیکشن ‘‘کرائی جائے ،حالانکہ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا ، نشتر حکام بھی اس غفلت کے مرتکب ٹھہرے ، کیونکہ وہ ہسپتال میں انتظامیہ کے دورے تو کراتے رہے مگر انہوں نے نشتر کی ڈس انفیکشن کا معاملہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی طبی عملہ کو حفاظتی کٹس کی فراہمی پر سنجیدگی دکھائی گئی ، اس وقت نشتر میڈیکل یونیورسٹی وہسپتال کے ڈاکٹر،نرسز،پیرامیڈیکل سٹاف انتہائی خطرناک حالات میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ این ڈی ایم اے اور دیگراداروں کی طرف سے نشر انتظامیہ کو حفاظتی کٹس فراہم کی جاچکی ہیں اسی طرح شہر کے مختلف اداروں اور شخصیات بھی حفاظتی کٹس، گلوز، گوگلز، سینی ٹائزر اور دیگر متعلقہ سامان فراہم کررہے ہیں مگر یہ سامان ہسپتال کے عملے کو فراہم نہیں کیا جا رہا ،یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ کی ہدایات پر پر سرکاری ہسپتالوں کے آؤٹ ڈوروارڈز کھول دیئے ہیں ، جبکہ ایمرجنسی وارڈ پہلے ہی کام کر رہے ہیں مگر ان دونوں جگہوں پر کام کرنے والے ڈاکٹروں پیرامیڈیکل سٹاف، نرسز کو کورونا سے بچاؤ کے لیے درکار سامان فراہم نہیں کیا گیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تادم تحریر نشتر ہسپتال کے نوے ڈاکٹراس مرض کے شبہ میں آئسولیشن وارڈز میں داخل ہوچکے ہیں جبکہ 15 سے زائد کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو ہے ، نرسز، پیرا میڈیکل سٹاف اس کے علاوہ ہیں ،اگر نشتر جیسے بڑے ہسپتال میںکورونا وائرس کو روکنے کے لیے حفاظتی سامان موجود نہیںہے ، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک اس حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے کیا وہ صرف خانہ پری ہے اور عوام کو جھوٹی تسلی دی جا رہی ہے؟
یہ صرف نشتر انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ، کمشنر ملتان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نشتر ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹروں،نرسوں ،پیرامیڈیکل سٹاف کو حفاظتی سامان فراہم کریں، ایسا نہ کرنے کی صورت میں مریضوں کا علاج تو درکنار خود ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کا علاج کرنا بھی ناممکن ہوجائے گا ،پی ایم اے ،ینگ ڈاکٹرز اور ڈاکٹروں کی دیگر تنظیمیں مسلسل اس بات کا مطالبہ کر رہی ہیں مگران کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کوئٹہ جیسے واقعات جب تک نہیں ہوں گے ، ڈاکٹروں کی نہیں سنی جائے گی،ادھر احساس پروگرام کی امدادی رقم تقسیم کرنے کے لیے حکومت نے جو طریقہ کار وضع کیا ہے وہ نہ صرف عوام کی تذلیل کا باعث بن گیا ہے بلکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ بھی بن سکتا ہے کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین کو رقم دینے کے لیے مختلف سینٹرز پر بلایا جاتا ہےاور وہاں ایسے انتظامات موجود نہیں ہیں کہ نظم و ضبط کے ساتھ اور کورونا وائرس کے لیے جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق فاصلہ رکھ کررقوم تقسیم کی جا سکیں ، اب تک ملتان اور جنوبی پنجاب میں درجنوں ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
جن میں خواتین کے درمیان لڑائی جھگڑے اور انتظامیہ کی جانب سے سخت حکمت عملی کے باعث بھگدڑ مچنے جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں ، ایک واقعہ میں تو ملتان کی 70 سالہ خاتون مبینہ بھگدڑ کی وجہ سے سانس گھٹنے کے باعث انتقال بھی کرچکی ہیں ، سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کےاس دور میں یہ پرانا اورگھسا پٹا طریقہ کیوں اختیار کیا گیا ؟ناقدین کے مطابق ایسا صرف سیاسی مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ حکومت لاکھوں لوگوں کو براہ راست امداد دے رہی ہے جس نے بھی یہ طریقہ کار وضع کیا ہے اس نے اس کے منفی عوامل پر نظر نہیں رکھی ،جواب سامنے آ چکے ہیں ۔جبکہ اہل افراد کو ایس ایم ایس کے ذریعے رقم وصول کرنے کا پیغام بھی بھیجا گیا ہے تو اس کی بنیاد پر بینکوں، موبائل کمپنیوں کے ایزی پیسہ اور اے ٹی ایم کے ذریعے یہ رقم نکلوانے کی سہولت دینے میں آخر کیا حرج تھا؟ اس طرح سماجی فاصلہ بھی برقرار رہتا اور صبح سے شام تک مدد کے انتظار میں بیٹھی خواتین کی تذلیل بھی نہ ہوتی۔
جہاں تک لاک ڈاؤن کا تعلق ہے تو حالات یہی بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے پنجاب میں لاک ڈاؤن کی مدت 21 اپریل تک بڑھا دی گئی ہے جبکہ سندھ حکومت پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ لاک ڈاؤن ختم نہیں کرے گی ۔بڑے شہروں میں کورونا پازیٹو کیسوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور روزانہ درجنوں کیس سامنے آنے لگے ہیں جو مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں، یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ کورونا وائرس کا یہ عفریت ابھی قابو میں آنے والا نہیں ہے، پنجاب میں جو ڈھیلا ڈھالا، لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے، کیونکہ لوگوں نے باہر آنا نہیں چھوڑا اوردرجنوں اقسام کی دکانوں کو کھلا رکھنے کی اجازت دے کر حکومت نے بھی اس ضمن میں آسانیاں فراہم کیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں عوام کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی فراہمی کا ابھی تک کوئی فول پروف نظام نہیں بنایا جاسکا، حکومت کی ساری توجہ ٹائیگر فورس بنانے پر مرکوز ہے مگر یہ سلسلہ اس قدر سست رفتاری کے ساتھ چل رہا ہے کہ اگلے دو تین ہفتوں میں یہ قابل عمل نظر نہیں آتا، جبکہ دوسری طرف حکومت لاک ڈاؤن میں سختی لانا چاہتی ہے کیونکہ کورونا کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا مزید دو تین ہفتوں کے لئے عوام کو محدود کیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ تاجر جو تین ہفتوں سے گھروں میں بیٹھے کسی غیبی امداد کا انتظار کر رہے ہیں دکانیں مزید بند رکھنے پر آمادہ ہوں گے؟ ابھی سے ہی آوازیں آنے لگی ہیں ۔کہ اگر حکومت نے لاک ڈاؤن ختم نہ کیا ، تو وہ ازخود دکانیں کھولنے پر مجبور ہوجائیں گے۔