اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف سوشل میڈیا پر نازیبا زبان کے استعمال اور کردار کشی پر مبنی مہم کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو اسکی تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم میڈیا آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو بدنیتی پر مبنی اس مہم کی تحقیقات کرنے اور اس میں ملوث عناصر کا کھوج لگانے کیلئے افسران کی ٹیم مقرر کرنے اور متعلقہ قوانین کے مطابق ضروری قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں تسلی بخش جواب نہ دینے اور مبینہ طور پر غیر سنجیدہ رویہ اپنانے پرمعاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزا کی سرزنش کرتے ہوئے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے غیر سنجیدہ یا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ جبکہ تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے جیو کے پروپرگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو فارغ کرنے کی خبردرست نہیں ہے۔
علاوہ ازیں وزارت صحت نے کرونا وائرس پر پیشرفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔ ادھر وفاقی وزیر کے مساوی اختیارات اور عہدہ کے حامل وزیر اعظم کے 5غیرمنتخب مشیروں اور وزیر مملکت کے مساوی اختیارات اور عہدہ کے حامل، وزیر اعظم کے 14 غیر منتخب معاونین خصوصی کی تقرریوں کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں ان عہدوں سے فارغ کروانے کیلئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ غیر منتخب افراد کو وفاقی وزراء کے درجے پرمقرر کریں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر کے مساوی اختیارات اور عہدہ کے حامل وزیر اعظم کے 5 مشیروں اور 14 غیر منتخب معاونین خصوصی کی تقرریاں غیر آئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
درخواست گزار محمد ارشاد خان ایڈووکیٹ اور غلام دستگیر بٹ ایڈووکیٹ کی جانب سے بدھ کے روز جہانگیر جدون ایڈوکیٹ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل184(3)کے تحت دائر کی گئی درخواست میں وزیر اعظم کے مشیر ملک امین اسلم خان، عبدالرزاق داؤد ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ،ڈاکٹر عشرت حسین ،ڈاکٹر ظہیرالدین بابر اعوان کے علاوہ وزیر اعظم کے 14 معاونین خصوصی جن میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر،مرزا شہزاد اکبر ، محمد شہزاد ارباب، سید ذوالفقار عباس بخاری،شہزاد سید قاسم ،علی نواز اعوان ،عثمان ڈار،ندیم افضل گوندل، سردار یار محمد رندھ ،ڈاکٹر ظفر مرزا ،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ندیم بابر ،معید یوسف اور ڈاکٹر تانیہ کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ان مشیروں اور وزراء کی تقرریوں، انہیں وفاقی وزیر کے برابر دئیے گئے اختیار اور 1973 کے رولز آف بزنس کے رول 4 ( 6 ) کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کی جانب سے استعمال کیے گئے انتظامی اختیارات کو غیرآئینی قرار دیا جائے۔
درخواست میں ملقف اپنایا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر اور معاونین خصوصی تنخواہ سمیت کسی مالی مراعات کے مستحق نہیں۔ عدالت وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی طرف سے وصول کی جانے والی ساری تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم بھی صادر کرے۔
علاوہ ازیں وزارت صحت نے کروناوائرس پر پیشرفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاق حکومت نے صحت کے حوالے سے معلومات کیلئے ہیلپ لائن1166 بنائی، اسکریننگ کیلئے 83کے قریب تھرمل اسکینرز مختلف جگہوں پر نصب کیے گئے۔
اسلام آباد کے مختلف سینٹرز میں آئسولیٹڈبیڈز کی تعداد 154 ہے، اسلام آباد میں قائم قرنطینہ سینٹرز میں بیڈز کی تعداد300کے قریب ہے، 850کے قریب ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو ٹریننگ دی جارہی ہے، کرونا سے نمٹنے کیلئے 112ڈاکٹرز اور 108کے قریب پیرامیڈیکل اسٹاف ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعداد کرونا کیسز کے حساب سے مختص کی گئی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں کورونا کی روک تھام سے متعلق حکومتی کاوشوں کو مناسب طریقے سے پیش نہ کرنے کا بھی نوٹس لیا اور معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کی سرزنش کی۔
ذرائع نے بتایا کہ بطور معاون خصوصی ظفر مرزا کافرض تھاکہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے حکومتی کاوشوں کو جامع انداز میں پیش کریں۔
ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ظفر مرزا سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے تھے۔