یہ ہفتہ خاصہ ہنگامہ خیز رہا ۔ آخر میر ہزار خاں کھوسو نگراں وزیر اعظم بن گئے ۔ اورہم نے ایک منتخب جمہوری حکومت کے پورے پانچ سال مکمل کر نے کے بعد عام انتخابات کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھا لیا ۔ اور عمران خاں نے ایک بار پھر لاہور میں وہ دھماکہ خیز جلسہ کر ڈالا جس نے ان لوگوں کے منہ بند کر دیئے جو یہ کہنے لگے تھے کہ عمران خاں کا گراف نیچے آ گیا ہے ۔ ادھر پرویز مشرف یہ کہتے ہوئے سچ مچ ہی پاکستان پہنچ گئے کہ تم تو کہتے تھے میں نہیں آؤں گا،اب دیکھ لو میں آ گیا ہوں ۔ اب وہ کس برتے پر آئے ہیں ؟ چندہی دن میں اس کا بھی پتہ چل جا ئے گا ۔ چلئے،پہلے نگراں وزیراعظم کی بات ہو جا ئے ۔ اب چونکہ الیکشن یقینی ہوگئے ہیں اس لئے بھول جا ئیے اس بات کو کہ نگراں وزیر اعظم کا انتخاب ہمارے سیاست داںآ پس میں مل جل کر خود ہی کر سکتے تھے ۔یعنی اگر ان کے درمیان کسی نام پر بھی اتفاق ہو جا تا توا لیکشن کمیشن تو دور کی بات ہے یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بھی نہ جا تا۔ اور بھول جا ئیے یہ بات بھی کہ اگرسابق قومی اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خاں عین موقع پر پریس کانفرنس کر کے یہ اعلان نہ کر دیتے کہ آخر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے ہی جائے گاتو پارلیمانی کمیٹی ہی اسے کب کاطے کرچکی ہوتی ۔اخباری خبر تو یہ تھی کہ ایک نام پر اتفاق ہو بھی گیا تھا ۔ لیکن چونکہ چودھری صا حب کو کمیٹی سے کوئی امید نہیں تھی اس لئے وہ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے جا ئے ۔ الیکشن کمیشن سے انہیں پوری امید تھی کہ وہ ان کی جماعت کے تجویز کئے ہوئے ناموں میں سے ہی کسی کا انتخاب کرے گا ۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور پیپلزپارٹی کا دیا ہوا نام نگراں وزیر اعظم کے لئے چن لیا گیا ۔ادھرہمارے سیاست دانوں نے بد گمانی اور بد اعتمادی کی جو فضا پیدا کر دی تھی اس کی وجہ سے آخری فیصلہ کرنے میں الیکشن کمیشن کو بھی دودن لینا پڑے ۔ یوں تو میر ہزار خاں کھوسو کا نام پیپلز پارٹی نے دیا تھا لیکن میاں نواز شریف نے ان کے تقرر کا خیر مقدم کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے ۔ اس سے یہ خدشات بھی دور ہو گئے ہیں کہ شاید ان کی جماعت کو یہ نام پسند نہ آئے ۔
چلئے، نگراں وزیر اعظم کا تو تقرر توہو گیا۔لیکن اس ہنگامے میں ان معزز اور محترم شخصیات کوخواہ مخواہ اس تنازعے میں ملوث کر لیا گیا جن کے نام حکمراں اتحاد اورمسلم لیگ نون نے اس عہدے کے لئے پیش کئے تھے ۔کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ دونوں جانب سے اس عہدے کے لئے جو نام دئے گئے تھے ان پر کئے جانے والے اعتراض الم نشرح نہ کئے جاتے ؟ان پر آپس میں ہی بحث کر لی جاتی ؟ سب سے پہلے تو عاصمہ جہانگیر کا نام سامنے آتے ہی کچھ حلقوں کی طرف سے ان پر تیروں کی بو چھاڑ کر دی گئی تھی حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادئی اظہار کی جد و جہد میں ان کی جو خدمات ہیں اس کا اعتراف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جا تا ہے ۔اسی طرح بعد میں دونوں جانب سے نگراں وزیر اعظم کے لئے جو نام پیش کئے گئے وہ سب اپنے اپنے شعبے اور اپنے اپنے میدان میں قابل احترام ہیں ۔انہیں متنازع نہیں بنانا چاہئے تھا ۔ ٹھیک ہے اٹھارویں ترمیم کے تحت عام انتخابات کے لئے ایک نگراں حکومت بنانا لازمی ہے ۔لیکن اس کا طریق کار ایسا ہونا چاہئیے کہ وہ بد مزگی پیدا نہ ہو جو اس بار دیکھنے میں آئی ہے ۔ تمام مہذب ملکوں میں تورواج یہ ہے کہ بر سر اقتدار حکومت ہی عام انتخابات کرا تی ہے ۔ ہوتا یوں ہے کہ جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان کیا جا تا ہے اس کے ساتھ ہی ملک کے تمام انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن اتنا طاقت ور اور اتنا با اختیار ہو تا ہے کہ برسر اقتدار حکومت کو کسی معاملے میں بھی مداخلت نہیں کر نے دیتا۔ وہ ہر لحاظ سے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انتخابات صاف شفاف ہوں۔ہم نے بھی اپنے الیکشن کمیشن کو پوری طرح با اختیار بنا دیا ہے ۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات منصفانہ طور پر استعمال کر رہا ہے ۔اس لئے اس بار تو ہم نے نگراں حکومت کا طریقہء کار اپنایا ہے لیکن آنے والی حکومت کو ضرورسوچنا چاہئے کہ یہ طریقہ کار جاری رکھا جا ئے یا دوسرے مہذب ملکوں کو راستہ اختیار کیا جا ئے ۔بہر حال ۔ اب مرحلہ انتخابات کا ہے۔اور ہمارے نگراں وزیر اعظم نے یقین دلا دیا ہے کہ ان کی حکومت کام صرف صاف شفاف الیکشن کرانا ہی ہے ۔انہوں نے ان لوگوں کے بھی منہ بند کردیئے ہیں جو افواہیں پھیلا رہے تھے کہ نگراں نظام اپنی مقررہ مدت سے بھی آگے چلا جا ئے گا ۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔
عمران خاں کے جلسے کے بارے میں کہنے والے چاہے کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا۔ جلسہ واقعی بہت بڑا تھا ۔ جلسے میں شامل ہونے والوں کو جوش وخروش بھی کچھ کم نہیں تھا۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سوشل میڈیا پر ہر وقت موجود رہنے والے کھاتے پیتے نوجوانوں کی جماعت ہے۔ اس جلسے میں ہر طبقے کے لوگ موجود تھے۔اب یہ جلسہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے لئے کتنا مدد گار ثابت ہو گا؟ یہ تو آنے والا وقت بتا ئے گا۔ لیکن سیاسی میدان میں اس کا اثر ضرور ہو گا۔ اس کا احساس عمران خاں کو بھی ہے۔ اسی لئے جہاں پہلے وہ اکیلے ہی الیکشن کے میدان میں اترنے کی باتیں کرتے تھے اب دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کی تیاریاں کرنے لگے ہیں ۔ان کی پہلی بات چیت جماعت اسلامی کے ساتھ ہوئی ہے ۔انتخابی نشستوں پریہ لین دین خیبر پختونخوا میں خاص طور سے ان کے کام آئے گا ۔ جماعت اسلامی کے ساتھ اس قسم کا سمجھوتہ پہلے مسلم نون کیا کرتی تھی ۔ لیکن اب چونکہ مسلم لیگ نون کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ الیکشن میں اسے کسی کی مدد یا کسی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں ہو گی اس لئے اس نے جماعت اسلامی کو عمران خاں کے حوالے کر دیا ہے۔ادھر جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کر کے عمران خاں نے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ان کی جماعت دائیں بازو کی جماعت ہے ۔ اب تحریک انصا ف میں شامل وہ خواتین و حضرات کیا کہیں گے جو اپنے آپ کو بائیں بازو کی سیاست کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے تھے؟ ۔ ثابت ہوا کہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ لیجے ،کالم ختم ہو گیا اور پرویز مشرف کے بارے میں کچھ بات ہی نہیں ہوئی ۔ اصل میں ان کے بارے میں ابھی کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا ۔پہلے وہ عدالتوں سے تو نبٹ لیں پھر ان کے لئے بھی کچھ کہا جا سکے گا ۔