سیدہ تحریم فاطمہ
قدرت کا سب سے خوبصورت عطا کردہ تحفہ بیٹیاں ہیں۔ کوئی الہڑتوکوئی چنچل اورکوئی بہت حساس۔ کبھی گھر سنبھالنے میں ماں کا ہاتھ بٹانے والی،کبھی بھائیوں سے جھوٹی جھوٹی باتوں پر ضدیںکر نے والی۔باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ چھوئی موئی سی لڑکیاں، جب کیریئر وومن بنتی ہیں تو کوئی مائونٹ ایورسٹ پر جھنڈا لہرا دیتی ہے تو کوئی جنگجو پائلٹ بن کر سینے پر تمغہ سجا لیتی ہے۔کوئی سمندر کی تہہ تک خوطہ لگاکر سی ڈائیور بن جاتی ہے اور کوئی بزنس وومن بن کر تن تنہا اپنی ایمپائر کھڑی کرلیتی ہے، مگران سب کے باوجود ان لڑکیوں میں وہ رنگ، خوشبو بادل سے باتیں کرنے والی ایک لڑکی ضرور پائی جاتی ہے، جس کے من کی کونپلیں بے حد چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے کھل اٹھتی ہیں۔
ہمارے خواب تو
دل کے آنگن میں
اڑنے والی تتلیاں ہیں
جن کے رنگ کچے
اور عمریں مختصر ہیں!
اگربات کریں، خصوصاً مڈل کلاس گھرانوں کی تو ان کی پیدائش کے ساتھ ہی امائوں کی فکریں دوچند ہوجاتی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی گھر میں ایکپیٹی آجاتی ہے۔جیسے جیسے بیٹیاں بڑی ہوتی جاتی ہیں ان پیٹیوں میں سامان بھی بڑھتا جاتا ہے۔ معمولی دکھائی دینے والی پیٹی یا پیٹیوں میں گھر کی لڑکیوں کے سارے خواب بند ہوتے ہیں۔ سنہرے، اوپہلے بے حد کچے سے خواب۔ خاص موقع پر جب یہ پیٹیاں کُھلتی ہیں، لڑکیوں کی آنکھوں میں آپ ہی ہرے ،لال، گلابی، جگنو، بادل، ہوا، پھول و مخمل سے خواب چپکے سے آٹھہرتے ہیں۔ دوسری طرف جوڑ توڑ حساب کتاب کرتی مائوں کی انگلیوں کی پوریں ماہ وسال اور جہیز کا سامان گنتے گنتے تھکنے لگتی ہیں۔ ہرگزرتے سال فکر سے چہرے کی جھریوں میں ایک آدھ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کسی ایسی ہی محبت سے گندھی ماں نے ایک دفعہ کہاتھا۔
’’اگر مجھے قدرت کسی ایک فیصلے کا اختیار دیتی تو میں سب سے پہلے اپنی بیٹیوں کا اچھا نصیب لکھتی،،۔
فی زمانہ اپنے آنگن کی چڑیوں کے بستے گھر اور اچھے بر جہاں سکھ کا سانس فراہم کرتے ہیں، وہی جہیز، مال واسباب، زیور کپڑے کا بندوبست راتوں کی نیندیں اڑا دیتا ہے۔کسی بھی شادی کی تقریب میں چلے جائیں، بیٹی کی رخصتی پر بار بار نم ہوتی آنکھوں سے زیادہ افراد خانہ کی پریشانی کا دائرہ کار مہمانوں کی باتوں کی طرف لگا ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی کمی نہ رہ جائے۔ لوگ کھانے پر یوں ٹوٹتے ہیں گویا آخری کھانا ہو یا کوئی دوسرا ان سے زیادہ نہ کھالے۔ اس کے باوجود آخر میں چند شکایات رہ جاتی ہیں۔
انتظام اچھا نہیں تھا۔ کھانا ٹھنڈا تھا یا ہمیں تو ملا نہیں۔ گرمی ہے تو بینکوئٹ ہال کیوں نہ کر لیا۔ آج کل چلنے والے نئے وبال جان قسم کے ٹرینڈز میں دولہا دلہن کا ڈیزائنر جوڑا، آدھا لاکھ کا میک اپ پیکیج جس کے بہہ جانے کے خوف سے اب دلہنیں بھی آنکھیں ٹپٹپانے پر اکتفا کرتی ہیں، روتی نہیں کہ مبادا مصنوعی پلکیں اور لینس ہی پھڑک کے باہر نہ آنکلیں۔ ان کے بغیر کسی بھی شادی کا انجام پانا اب گویا ناممکنات میں سے ہو گیا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ٹرینڈز بھی اب پرانے ہوکر رگوں میں گھل سے گئے ہیں۔ نئی سننے کو کلیجہ تھام لیجیئے کہ گزشتہ دنوں میری پارلر میں ایک ولیمہ کی دلہن سے ملاقات ہوئی، جو بے چاری صبح بارہ بجے پارلر آئی تھی اور شام 4 بجے بالکل تیار دلہن بنی بیٹھی گاڑی کا انتظار کررہی تھی۔
ہمیں لگا شاید دوسرے شہر جانا ہو گا، مگر بات کرنے پر پتہ چلا کہ دولہا دلہن کا ساحل سمندر پر آئوٹ ڈور فوٹو شوٹ تھا، جو تقریباً پانچ ہی گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد تقریباً ولیمہ تھا۔ ہمارے تو یہ سن کر ہی چراغوں میں روشنی نہ رہی، اس کے ساتھ ہی خیال آیا کہ جس طرح ہر فلم کا ایک ڈائریکٹر ہوتا ہے، اسی طرح ہر شادی میں دو ڈائریکٹر ہوتے ہیں، ایک فوٹوگرافر اور دوسرا مووی میکر، اُن کو جو سین جہاں شوٹ کرنا ہوتا ہے اداکار بھی وہیں بلوالیے جاتے ہیں۔اب چاہے وہ ساحل سمندر ہو یا چڑیا گھر، اسی طرح پوری تقریب کو وہی لوگ ڈائریکٹ کرتے ہیں۔
اب مسکرایئے، اب وہاں سے چل کر آئیے، اب بیٹھ جایئے، اب دیکھیئے، اب پھر چل پڑھیے اور مزے کی بات سین صحیح شوٹ نہ ہو تو ری ٹیک بھی حسب ضرورت کروالیے جاتے ہیں۔ دولہن بے چاری دولہا کے دیکھنے سے پہلے ہی فوٹوگرافر کو بارہ سو پوز دےکر تصاویر بنوا چکی ہوتی ہے۔ اسی طرح دولہا اور دلہن کو پلے کارڈز بھی تھمادیئے جاتے ہیں، جن پر ہم نے تو بلامبالغہ ’’برائڈ اور گروم‘‘ لکھا پایا۔ مبادا کسی کو شک ہو تو دُور کر لے۔
پہلے دولہا اور دلہن کا استقبال پھولوں کی پتیوں اور شگن کے گیت گا کر لیاجاتا تھا۔ اب اس ’’انٹری‘‘ کی شوٹنگ میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ ہال میں گھپ اندھیرا کردیاجاتاہے۔جس میں صرف دولہا دلہن روشنی میں چمک رہے ہوتے ہیں۔ گانوں کا والیوم ایسا ہوتا ہے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، بچے ڈر کے مائوں سے چمٹ جاتے ہیں اور لوگ دولہا دلہن میں گم ہوجاتے ہیں۔اب ایسے میں کوئی اندھیرے میں لڑکھڑا کرگرے یا کسی کا منہ ہاتھ ٹوٹے۔آپ کی جانے بلا۔
ہم شان و شوکت، نمود و نمائش کے چکر میں اپنی اقدار کھوتے جارہے ہیں۔ بلاوجہ کے لوازمات، وقت کا ضیاع اور بے تحاشہ اصراف کا دوسرا نام آج کل شادی ہے، جس میں بے دریغ لٹانے کے باوجود آپ دنیا کو کبھی خوش نہیں کرسکتے، کیونکہ دنیا کا کام تو ہے ہی باتیں بنانا۔شادی دو خاندانوں کا ملاپ اور زندگی کی نئی شروعات ہوتی ہے۔بیٹیوں کے گھروں کو جہیز کے سامان کے بجائے دعائوں اوراخلاقی اقدار سے آباد کرنا شروع کیجئے۔دنیا و آخرت دونوں میں سکون کامل نصیب ہوگا۔