پتا نہیں اس بوڑھے اور بیمار آدمی کو کیا پڑی ہے کہ اسے تند ہواؤں کے مقابل چراغ جلانے کا جنون ہے، حالانکہ وہ میر خلیل الرحمٰن کا بیٹا ہے جس نے اپنی پُر خلوص جدوجہد اور شبانہ روز محنت کے مہ و سال گزارنے کے بعد اس ملک کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤس کھڑا کیا تھااور جاتے جاتے اسے اپنے بیٹے کو سونپ دیا تھا۔اب چاہیے تو یہ تھا کہ ناز و نعم میں پلا میر شکیل الرحمٰن دار کے بجائے کسی دربار کا رُخ کرتا، اپنے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل کے لئے تھوک کے بھائو بکتے کذب بیانی کے ماہرین اور بلیک میلنگ کے فاتحین کا انتخاب کرتا اور ان کے ہاتھ میں وہ بیانیہ پکڑا دیتا جو اپنی بدبوداری اور غلاظت کے باوجود بھی کبھی قابل اعتراض نہیں ٹھہرا۔ وہ کذب بیانی کی اس فوج ظفر موج کی پیٹھ تھپتھپاتا اور وہ لوگ اپنی پٹاریوں سے حرص و ہوس کے کریہ رنگوں سے مزین وہ ناگ برآمد کرتے جو بے بنیاد الزامات اور دشنام و بہتان کی زہر افشانی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس ’’خدمت‘‘ سے میر شکیل الرحمٰن کا ادارہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی راہ لیتا، اشتہارات کی بارش ہوتی، درپیش مسائل سیکنڈوں میں حل ہوتے، بزنس کو وسعت ملتی اور اپنی شامیں اہل سطوت و دربار کے ساتھ گزارنے کا موقع ملتا لیکن میر شکیل الرحمٰن نے ایک بزنس مین کے بجائے ایک حساس شاعر کی مانند حقیقت پسندی کے بجائے تصور پسندی کے راستے کا انتخاب کیا اور یہاں سے وہ نیم تاریک راہوں اور دار کی خشک ٹہنی کی جانب چل پڑا۔
اب روز روز وہ پولیس کے نرغے میں عدالتی راہداریوں میں خوار ہوتا اور شام کو ’’اپنے گھر‘‘ یعنی سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ جرم یہ ٹھہرا ہے کہ آج سے کوئی چونتیس سال پہلے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔
کہیں پڑھا تھا کہ اُردو کے پہلے صحافی اور مدیر (دلّی اردو اخبار) مولوی محمد باقر کو 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دوسرے حریت پسندوں سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ چند دن بعد فوجی عدالت سے موت کی سزا سنائی گئی۔ 16ستمبر 1857ء کو جب انہیں دلّی دروازے کے باہر توپ کے گولے سے اُڑانے کے لیے لایا جا رہا تھا تو ان کا ہونہار اور کم عمر بیٹا (مولانا محمد حسین آزاد) بھیس بدل کے ان کے قریب جا پہنچا۔ زنجیروں میں جکڑے مولوی محمد باقر اور ان کے بیٹے کی آنکھیں چار ہوئیں تو والد نے دور سے دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کا اشارہ کیا۔ نہیں معلوم کہ یہ دعا مولوی محمد باقر کے لیے تھی یا اُردو صحافت کے لیے لیکن اس دعا کو بہرحال شاندار قبولیت ملی کیونکہ بر صغیر کی صحافتی تاریخ کے پہلے شہید مولوی محمد باقر آج بھی برصغیر کی آزاد صحافت اور جرأت مند اظہارِ رائے کا ایک دمکتا ہوا استعارہ ہیں اور اگر وہ دعا صحافت کے شاندار مستقبل کیلئے مانگی گئی تھی تو بھی قبولیت سے محروم نہیں رہی کیونکہ ڈیڑھ سو سال بعد بھی اس صحافت نے باوجود کچھ کمزوریوں اور نادانیوں کے‘ سچ بولنے اور ڈٹ جانے کی روایت کو ترک نہیں کیا۔ طاقت کے در و بام سے ٹپکتے ہوئے جبر کے جس خونی منظر نامے میں کل مولوی محمد باقر ایک دلربا دلیری کے ساتھ ڈٹا نظر آیا تھا، عین اسی سے ملتے جلتے حالات و واقعات میں میر شکیل الرحمٰن نے بھی اس روایت کا عَلم گرنے نہیں دیا۔ یہی ہماری صحافت ہے اور یہی اس کا مزاج اور تاریخ۔ اور رہی صحافت کی آڑ میں وارداتی گروہوں کا شرمناک کردار اور مشکوک چال چلن تو اسے صحافت تسلیم ہی کب کیا گیا ہے جو اس پر بات کریں؟