• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ: مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے وسائل کمیاب

’’کورونا‘‘ دنیا بھر میں خوف و دہشت کی علامت بن چکا ہے۔دنیا بھر کیحکومتیں اور عوام تذبذب کا شکارہیں ۔بالخصوص برطانیہ کی حکومت بروقت اقدام عمل میں نہ لا سکی اور ملک کو مکمل لاک ڈاؤن کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہی اور جب جزوی طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیاگیا،تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ،جس کا خمیازہ آگے بھی بھگتنا پڑے گا ۔کورونا وائرس دن بدن پھیل رہا ہے ،برطانوی حکومت نے بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیےاہم اقدامات کیے ہیں، حکومت نے بڑی پارکنگز خالی کرا کے بنیادی ہیلتھ یونٹ بنا ئے ہیں تاکہ مریضوں کو علاج کی سہولت مہیا کی جا سکے۔

کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس ایسٹر کے اختتام تک اپنے عروج پر پہنچ جائے گا اور ہلاکتوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ سیکرٹری صحت میٹ ہینکوک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسٹر سے قبل ایک دن میں ایک ہزار سے زائد افراد اس مہلک بیمار ی کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سخت ترین حفاظتی اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں، جب کہ این ایچ ایس کی فرنٹ لائن میں کام کرنیوالے عملے کا تحفظ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور ہماری یہ کوشش ہے کہ جلد از جلد ایک لاکھ سے زائد افراد کا روزانہ کی بنیاد پر ٹیسٹ کیا جا سکے۔ 

انہوں نے کہا کہ ملٹر ی لیبارٹری میں آبادی کے حوالے سے 3ہزار 5سو افراد کے ٹیسٹ روزانہ کیے جا رہے ہیں ۔اس وقت بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کے کتنے مریض ہیں ۔دوسری جانب کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے مریضوں اور انہیں وینٹی لیٹرز پر رکھنے کی وجہ سے این ایچ ایس کو آکسیجن کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس وقت صرف انگلینڈ میں 8ہزار کے قریب وینٹی لیٹرز استعمال کیے جا رہے ہیں بیک وقت بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز چلنے کی وجہ سے ہسپتالوں کی مرکزی آکسیجن کے دبائو میں کمی ہو جاتی ہے یا پھر ا س کاخاتمہ بھی ہو سکتا ہے 30ہزار مزید کورونا کے مریضوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن جو ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ہے نے خبردار کیا ہے کہ اسپتال کے عملے کو وینٹی لیٹرز سمیت محدود وسائل کے باعث مشکل فیصلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس میں کسی ایسے مریض سے علاج کی سہولت واپس لینا بھی شامل ہو سکتی ہے، جس کے پاس کسی دوسرے مریض کے مقابلے میں زندہ رہنے کا امکان کم ہو ۔علاوہ ازیںمحکمہ موسمیات نے برطانیہ میں درجہ حرارت 26سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ پولیس نے درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے سن باتھ لینے والے افراد کو متنبہ کیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور سیلف آئسولیشن اختیار کریں ۔باہر نکلنے والوں سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور جو لوگ سیلف آئسولیشن سے تنگ آ کر باہر نکلنا چاہتے ہیں وہ صبر سے کام لیں ۔ ایسٹر کے موقع پر سن باتھ اور پکنک منانے والے بھی خبردار رہیں۔ دوسری طرف میٹرو پولیٹن پولیس فیڈریشن کے صدر کین مارش نے کہا کہ پولیس لاک ڈاؤن کے حوالے سے حاصل شدہ اختیارات پوری طرح استعمال کرنے کیلئے تیار ہیں اور اگر لوگوں نے زبانی احکامات پر عمل درآمد نہ کیا تو پہلے وارننگ ‘ پھر جرمانہ اور گرفتاری بھی ہو سکتی ہے ۔

پاکستانی کمیونٹی کے افراد بھی کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں نامور شخصیت اور سماجی کارکن برسٹر شبیر سرور جہان فانی سے کوچ کر گے ہیں، اسی طرح 10 دیگر پاکستانی ابھی تک مقامی اسپتال میں داخل ہیں، جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق برطانیہ بھر میں 42 ہزار افراد کورونا وائرس کا شکار ہیں، جبکہ 4300 افراد وفات پا چکے ہیں ۔مشکل اور مصیبت کی اس گھڑی میں برطانیہ یورپ کی نامور دینی شخصیت و جمعیت علماء اسلام یورپ کے کنوینر حضرت مولانا عبدالحمید نے کہا ہے کہ آج مسلم اُمّہ نے اپنے اقدار ، اسلاف، دین اسلام کو پس پشت ڈال دیاہے اور دنیاوی اقدار، رسم و رواج اپنا لیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر شخص پریشان لاچار اور بے بس ہو گیا ہے۔ 

جو اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، لیکن ابھی تک اس عذاب سے نکلنے کی دوائی تیار ہی نہیں ہوئی ، اس وائرس کا مقابلہ صرف اور صرف قرآن پاک میں اور طب نبویﷺ میں ہے ۔افراتفری کے اس دور میں سیرت نبوی ﷺکو اپنا یا جائے تو وائرس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج دنیا کے رہنما وقائدین مسلمانوں کی مساجد کا رخ کر رہے ہیں، سکارف کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ حضرت حاجی عبدالحمید نے کہا کہ اب بھی اللہ کی رسی کو تھام لینے سے ہم اس عذاب سے نکل سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ توبہ کے دروازے بند ہوں ،ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہوگا۔ 

تازہ ترین