ہر شے مسافر، ہر چیز راہی
کیا چاند تارے، کیا مرغ و ماہی
تُو مردِ میداں، تُو میرِ لشکر
نوری حضوری تیرے سپاہی
کچھ قدر اپنی تُو نے نہ جانی
یہ بے سوادی، یہ کم نگاہی!
دنیائے دُوں کی کب تک غلامی
یا راہبی کر یا پادشاہی
پیرِ حرم کو دیکھا ہے میں نے
کِردار بے سوز، گُفتار واہی