حنا شمیم، کینیڈا
دل ڈھونڈتا ہے پھروہی فرصت کے رات دن......بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے.......شاعر جس وقت کی تمنا کرتا تھا،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت آ ٓگیاہے، مگرساتھ ہی ’’کورونا‘‘جیسی اذیت ناک وبا کو ساتھ لے آیاہے،جس سے کینیڈا سمیت تمام دنیا مشکلات سے دوچار ہے، Covid-19اپنےساتھ، بے روزگاری، تنگی اور موت کو لے آیا ہے۔بوڑھے بچے دونوں اس آفت سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
آپ کینیڈین نژاد پاکستانی ہوں یا کوئی اور سب کو اپنے اپنے گھروں میں رہنے کی ہدایت ہے ،تمام دوکانیں بند ہیں۔ صرف خوردونوش کے لیے بڑے بڑے اسٹورز کھلے ہیں۔جن کےدروازوں پر کافی دیر تک تین میٹرزکے فاصلے سے قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے.جمعہ اور ہفتے کو تمام اسٹورز بند ہوتے ہیں، یہی حال بینکوں کابھی ہے۔دنیا بالکل بدل گئی ہے، ہر شخص گھر بیٹھا ہے۔ اگر کوئی نکلتا ہے تو صرف بہت ضروری کام سے ورنہ گھر میں ہی قید ہو کر رہنا پڑتا ہے۔
ہسپتالوں، اولڈ یوسیز میں مرنے والوں کی تعداد ہر روز دُگنی ہوتی جا رہی ہے۔ گھروں میں مائیں بچوں کو کھانے اور مختلف کھیلوں میں الجھائے رکھتی ہیں۔حکومت مستقل طور پر لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ بچوں کی آن لائن Remate Lemning شروع کردی گئی ہے ۔ ہر روز تقریباً ایک گھنٹہ ابتدائی تعلیم کیلئے اور تین گھنٹے ثانوی تعلیم کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔ والدین بچوں کو آن لائن پڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔مطالعے کا ذوق رکھنے والوں کے لیے اہم کام یہ کیا گیا ہے کہ پبلشرز نے آن لائن کتابیں، کہانیاں سب مفت کر دیں ہیں۔ حکومت تعلیمی اداروں کی مدد کے ساتھ ساتھ چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو 12000ادا کیےہیں۔ مائیں جو باہر کام کرتی ہیں یا جو ورکنگ ویمن ہیں، اب گھروں میں ہی رہ کر کام کر رہی ہیں۔
باہر نکلنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے صرف کھانے پکانے اور صفائی ستھرائی میں مشغول ہونے کے ساتھ ان ڈور گیمز میں بھی مشغول ہیں۔کریم بورڈ، لوڈو، شطرنج، دوبارہ گھروں میں کھیلے جارہے ہیں۔ان دنوں گھروں میں موجود خواتین زیادہ تر کوکنگ میںدل چسپی لے رہی ہیں۔غرض ہر شخص ہی سماجی فاصلہ رکھنے کی جستجو میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک مشکل وقت ہے، لیکن یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ (آمین)
اب سے اہم بات جویہاں کے نظم و ضبط کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام حکومت اور انتظامیہ سے بہت تعاون کر رہے ہیں۔ تمام ریسٹورنٹ بند کر دیئے گئے ہیں،تاہم لوگ اپنے من پسند کھانے اور فاسٹ فوڈ اپنی کار میں بیٹھے بیٹھے ٹیک اوے کر کے گھر لے جاسکتے ہیں۔ حکومت نے تعمیراتی سائٹس کھولی ہوئی ہیں۔ ہماری ایک جاننے والی جوکہ ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ ایک دن وہ کام کے دوران کھانسنے لگیں، تو ان کو منیجر نے پوری سائٹ بند کروا دی اور ان صاحبہ کو گھر بھیج دیا۔
اب وہ گھر میں بیٹھی ہیں،ساتھ دیگر تمام ورکرز بھی گھروں کو بھیج دیئے گئے ہیں۔یہاںآن لائن پڑھانے کےدوران ٹیچرز Covid-19جوکہ کورونا وائرس کا نام ہے کے بارے میں معلومات دیتے ہیں ۔قرنطینیہ کے حوالے سےجب بچوں کی رائے معلوم کی تو پتہ چلا کہ وہ بچے جو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ رہتے ہیں، خوش ہیں لیکن جو صرف سنگل پیرنٹ کے ساتھ ہیں،انہوں نے افسردگی کا اظہار کیا۔
حکومت بیرون ممالک سے آنے والوں کی بھی کڑی نگرانی کر رہی ہے، بارہ سوفراد پر مشتمل قافلہ فروری میں ایران سے آیا تھا،جن میں بیس افراد کورونا مثبت تھے،حکومت نے سب کو Quarntine کر دیا۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی وجہ سے مسجد، مندر، گرجا، گوردوارے، امام بارگاہیں سب بند ہیں۔ جمعہ کی نماز بھی لوگ گھروں میں ادا کر رہے ہیں۔
یہ وقت ایک جنگ کا سا ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا میں کئی ایجادات ہوئیں۔ جن کی وجہ سے دنیا کی شکل بدل گئی، جہازپر عام افراد کا سفر معمول بن گیا ، سواریوں کی شکل بد ل گئی،ملکوں نے اسلحے کی دوڑ لگا دی۔ لوگ بھی اپنی اپنی ضرورت کے مطابق تیز رفتاردوڑ میں دوڑنے لگے۔ اس Covid-19کے بعد بھی دنیا بہت بدل جائے گی۔ خود کار گاڑیاں جو کے Remoteسے چل رہی ہیں۔ خون کے Samplesلے کے ہسپتال پہنچا ئی جارہی ہیں۔ان گاڑیوں میں ڈرائیور موجود نہیں ہوتے۔ٹیچرز گھروں سے بیٹھ کر بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ہوسکتا ہے مستقبل میں اسکول کی عمارت کی ضرورت نہ رہے۔ کئی ادارے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کررہے ہیں۔ سڑکوں پر جو تیز رفتار سواریاں روا ں دواں تھیں۔
اب وہ گھروں میں کھڑی ہیں۔ٹریفک کے کم ہونے کی وجہ سے فضا میں آلودگی کی کمی ہو گی۔ گھروں میں بچے اور ماں باپ زیادہ وقت ساتھ گزاریں گے۔ چھوٹے بچوں کو ماں باپ کی تربیت کے بہترمواقع ملیں گے۔ جس سے بچے بہتر شہری بن سکیں گے۔ساتھ ہی اس وبا کےبہت سے منفی اثرات معاشرے پر پڑےہیں،لوگ زیادہ سے زیادہ اشیاء خوردونوش اپنےگھروں میں جمع کر رہے ہیں۔جراثیم کش ادویہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ لوگ ہر روزگھر سے باہر ورزش کرنے کے بجائے گھرں میں محدود ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کم عمر اور معمر افراد بددلی ا شکار ہو سکتے ہیں۔ صحت کے مسئلے بھی بڑھیں گے۔
اب حال کچھ ان طلبہ کا گوش گزار کیا جائے جو دوسری دنیا سے یہاں پڑھنے آئے ہیں۔وہ چھوٹی موٹی ملازمت کر کے اپنے خرچے پورے کرتے ہیں،لیکن اس وبا کے اثرات نے ان کا روزگار بھی چھین لیا ہے،وہ نہ تو رہائش کا کرایہ ادا کر پا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ٹھیک سے پیٹ بھرنے کے لیے خوراک میسر ہے۔طالب علموں کی حالت دگرگوں ہے۔