• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وبا کیا آئی دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ایک ہم ہیں کہ ابھی تک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز ہی نہیں آرہے۔ اسی بحث میں وقت ضائع کئے جارہے ہیں کہ لاک ڈائون میں توسیع ہو یا نہیں۔ ادھر معیشت کی حالت تو 77سال سے پتلی تھی ہی لیکن ہم سب ابھی تک اسی امید پر جی رہے ہیں کہ کس کا کفن بیچ کر اپنا پیٹ بھریں۔ کوئی شرم ہوتی ہے کہ ہم گورکن کی طرح کسی میت کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اسے دفنانے کا موقع ملے اور چار پیسے ہاتھ لگ جائیں۔ ہماری تو حالت کسی اسپتال کے باہر ایمبولینس ڈرائیور جیسی ہے جو اسپتال سے نئی ڈیڈ باڈی نہ نکلنے پر یہ کہے کہ ’’ اج سواری نئیں آئی‘‘۔ کوئی تو خدا کا خوف کرے کورونا وبا کے ہاتھوں ملکوں کے ملک برباد ہو گئے اور ہم اپنی ہی لاش اٹھائے اس کی تدفین کے لئے کسی فٹ پاتھ پر کھڑے ہاتھ پھیلائے چندہ مانگ رہے ہیں اور چندہ بھی ان سے مانگتے ہیں کہ جن کے اپنے گھروں میں لاشیں پڑی ہیں، انہیں اپنی جان کے لالے پڑے ہیں کہ وہ آئندہ اپنی زندگی کیسے گزاریں گے اور ہم بھیک منگوں کی طرح ہاتھ اور چادر بچھائے صدائیں لگا رہے ہیں۔ یہ باتیں ذرا تلخ ہیں لیکن ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم سب بھکاری ہیں اور گھر بیٹھے من و سلویٰ اترنے کے منتظر ہیں اور یہ سوچ ہی نہیں آرہی کہ آسمان والا بھی ہم سے ناراض ہے اور ہم سے امید رکھتا ہے کہ اب بھی سنبھل جائو، محنت کرو، اپنے ہاتھوں سے کما کر کھائو۔ اس وبا کو قہرِ خداوندی ضرور سمجھیں لیکن اس قہر سے بچنے کی تدبیریں اور آگے بڑھنے کے اس خدائی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ یہ اللہ کی رحمت ہی ہے جو پاکستان ابھی تک اس وبا کی شدت سے کسی حد تک محفوظ ہے۔ یہی وہ اشارہ ہے کہ خدا ہمیں بار بار اپنے اعمال کی اصلاح اور دنیا میں معاشی طور پر آگے بڑھنے کا موقع دے رہا ہے۔ اس موقع کو ضائع مت کریں۔ لاک ڈائون میں توسیع حالات کا تقاضا ضرور ہے لیکن ان حالات میں کاروبارِ زندگی اور روزمرہ معمولات میں مستقل بنیادوں پر اصلاح کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ کورونا وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے اثرات کا عرصہ متعین کرنا بھی ناممکن ہے، بہتر یہی ہے کہ مستقل بنیادوں پر کچھ ایسے اصول (ایس او پیز) طے کر لئے جائیں جن سے زندگی کا پہیہ رواں دواں رہے اور ہم زندگی کا ایک نیا سفر شروع کر سکیں۔ دنیا ہماری طرف پلٹ سکتی ہے ہم ہاری بازی جیت سکتے ہیں، خوشیاں، راحتیں ہم پر مہربان ہو سکتی ہیں۔ ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں۔ جس ترقی یافتہ پاکستان کا خواب ہمیں دکھایا جارہا تھا اور یہ خواب جو ہر لمحے حقیقت بنتے بنتے بکھرتا رہا اس خواب کی تعبیر کا وہ لمحہ آج خدا نے ہمیں ایک بار پھر کورونا کی شکل میں فراہم کر دیا ہے۔ یہ وبا جہاں قہرِ خداوندی بن کر دنیا پر برس رہی ہے وہاں رحمتوں کے آثار بھی پیدا کررہی ہے۔ یہ ہمارا امتحان ہی تو ہے کہ اس لمحے کو کیسے پاکستان کے حق میں کرتے ہیں۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر آج ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور ہم نے اپنی نیتیں صاف کر لیں تو وہ دن بہت دور نہیں کہ ہم دنیا کی آنکھ کا تارا بن سکتے ہیں۔ یقیناً یہ باتیں دیوانے کے خواب سے کم نہیں لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ آج چین سے یورپ و امریکہ تک ساری دنیا کورونا کے ہاتھوں معاشی، نفسیاتی بحران کا شکار ہے کہ اس وائرس کے خوف سے نکلنا فوری طور پر ممکن نہیں لیکن خدا کی رحمتوں سے پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو اس وائرس سے بڑی حد تک محفوظ بھی ہے اور اس کے کمزور ترین معاشی ڈھانچے کی وینٹی لیٹر پر جو آخری سانسیں چل رہی ہیں اسے قرنطینہ سے نکال کر ایک صحت مند معیشت کے طور پر ابھارنا ممکنات میں دکھائی بھی دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا فوری طور پر صرف ان ممالک کے ساتھ کاروباری لین دین کرے گی جو اس وبا سے کم سے کم متاثر ہوئے ہوں گے۔ ان ممالک میں آج پاکستان سر فہرست ہے۔ چین یقیناً سب سے بڑی معاشی قوت ہے لیکن کورونا کے خوف سے دنیا اس کا متبادل تلاش کررہی ہے۔ یہ متبادل صرف پاکستان ہی ہو سکتا ہے جو اپنے کارخانوں، فیکٹریوں اور ٹیکسٹائل ملوں کو متحرک کرکے دنیا کی ہر ضرورت پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جب دنیا لاک ڈائون سے نکلے گی تو سپلائی اور ڈیمانڈ بڑھے گی۔ اسے پورا کرنے کے لئے پاکستان پہلی ترجیح کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جہاں ہماری قیادت کے وژن کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت فوری طور پر ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے ایکسپورٹرز کو اپنے آرڈر کی بروقت تکمیل کرنا ممکن ہو جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ نئے برآمدی آرڈز بھی ملیں۔ کارگو فلائٹس کا آغاز کریں، زیادہ سے زیادہ برآمدی آرڈرز حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک کمرشل قونصلروں کو متحرک کیا جائے تاکہ دنیا سے مستقل تجارتی روابط کی نئی راہیں کھل سکیں۔ صنعت کاروں کو بجلی، گیس، فکسڈ ٹیکس کی مد میں کم از کم پانچ سال کے لئے ایسی سہولتیں دی جائیں جن کی بنیاد پر وہ عالمی مارکیٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سی پیک کے تحت چین کے ساتھ تجارتی و صنعتی شراکت داری کی بنیاد پر تمام صنعتی زونز کو دس سال ٹیکس فری قرار دے کر فوری طور پر آباد کیا جائے اور ان کی ترجیحات چین کی مشاورت سے ہی طے کی جائیں۔ اس ماڈل سے چین کو بھی دنیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ اپنی ساکھ برقرار رکھنا ممکن ہوگا اور گوادر پورٹ بھی عالمی توجہ کا مرکز بن سکتی ہے۔ لاک ڈائون میں نرمی مرحلہ وار نئے نظام الاوقات مقرر کرکے کی جاسکتی ہے اور کاروبار زندگی کو رواں رکھا جا سکتا ہے۔ 24گھنٹے کے دورانیے کو تقسیم کرکے دفتری، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور ریسٹورنٹس کو کھولنا ممکن ہے اور ان ایس او پیز کی نگرانی کا کام ٹائیگر فورس کو سماجی تربیت دے کر لیا جا سکتا ہے۔ اچھے مستقبل کی خاطر تاریک دور میں روشن فیصلے کرنا ہی حکمت و دانش مندی کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین