29؍اپریل کو عرفان خان طویل علالت کے بعد راہی ملک عدم ہوئے ، جب کہ 30؍اپریل کی صبح کپور خاندان کےچنٹو یعنی رشی کپور کی وفات ہوئی۔ایک دم سے دو اموات ہوگئیں اور ان دو فن کاروں کے کروڑوں پرستار سوگوار ہوگئے۔ عرفان خان، جن کا پُورا نام صاحب زادہ عرفان علی خان تھا، ہندی سنیما کا ایک درخشاں ستارہ تھا۔ انہوں نے بھارتی، برطانوی اور امریکی فلموں میں کام کیا اور دُنیا بھر میں اپنے فن کی دھاک بٹھائی۔ عرفان خان جو بلاشبہ ایک بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے جانے والے اداکار تھے، کچھ عرصے سے نیورو اینڈوکرائن ٹیومر Neuroendocrine Tumour میں مبتلا تھے اور اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ ان کی آخری فلم ’’انگریزی میڈیم‘‘ تھی، جس میں ان کے مقابل کرینا کپور نے کام کیا۔
بھارتی فلم ’’انگریزی میڈیم‘‘ جب ریلیز ہوئی تو عرفان خان اس کی پروموشن اور پبلسٹی میں اپنی علالت کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ تاہم انہوں نے ایک آڈیو پیغام کے ذریعے لوگوں کو مخاطب کیا۔ ہم نے اس آڈیو کو سُنا اور محسوس کیا کہ اگرچے یہ آواز بسترمرگ پر پڑے، ایک ایسے شخص کی ہے جسے احساس ہے کہ اس کی بیماری کی نوعیت کتنی سنگین ہے اور وہ اسے سال بھر سے جھیل رہے ہیں، مگر حیرت انگیز طور پر ان کی آواز نہایت جان دار، بیان شگفتہ اور اچھا تھا۔
کہیں سے نا اُمیدی یا یاسیت کی جھلک تک نہیں۔ یہ یقیناً بہت کمال کی بات ہے۔ ’’انگریزی میڈیم‘‘ جو رواں برس ریلیز ہوئی، وہ 2017ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ہندی میڈیم‘‘ کا سیکوئل تھی۔ ’’ہندی میڈیم‘‘ وہ فلم ہے، جس میں عرفان خان کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا اور اس فلم میں ہماری پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے عرفان خان کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔صبا قمر کے مطابق عرفان خان نہایت نفیس اور عمدہ شخص تھے، جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ ’’ہندی میڈیم‘‘ نے باکس آفس پر کام یابی حاصل کی۔ دُنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہوئی اور ایک اندازے کے مطابق اس فلم نے کئی بلین ڈالر منافع کمایا۔ ’’انگریزی میڈیم‘‘ کی ہیروئن کرینا کپور جو سیف علی خان کی اہلیہ ہیں، ان سے کسی فلمی صحافی نے سوال کیا کہ بالی وڈ کے اتنے سارے خان ہیں، ان کا فیورٹ خان کون ہے؟ ہمارا خیال تھا کہ ان کا پسندیدہ خان یقیناً ان کے شوہر نامدار سیف علی خان ہوں گے، لیکن کرینا کپور کے جواب نے ہمیں حیران کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اداکاری کے لحاظ سے وہ سمجھتی ہیں کہ سارے خان بہترین ہیں، بہت عمدہ اداکاری کرتے ہیں، مگر عرفان خان کی الگ بات ہے۔
یہ تو سچ ہے کہ بالی وڈ کے تمام خان ایک طرف اور عرفان خان ایک طرف! اس کی وجہ شاید عرفان خان کا منفرد انداز ہے۔ اگرچہ یہ بات مشہور ہے کہ ہندی سنیما پر ابتدا ہی سے خان ہی حکومت کرتے آئے ہیں، اب چاہے وہ برصغیر کے فلم اداکار دلیبپ کمار یعنی یوسف خان ہوں، ٹیلی ویژن سیریل میں ٹیپو سلطان کا کردار کرنے والے اور بھارتی فلموں کے خوبرو اداکار شاہ عباس خان یعنی سنجے خان ہوں یا سنجے خان کے بیٹے زید خان یا بیٹی سوسن خان جو ریتک روشن کی سابقہ بیگم ہیں۔
مونا ڈارلنگ والے اجیت خان یعنی حامد علی خان ہوں یا فلم ’’شعلے‘‘ کا گبر امجد خان! امجد خان کے بیٹے شاداب خان ہوں یا سارہ علی خان اور ابراہیم علی خان کے والد سیف علی خان، مظہر خان ہوں یا فیروز خان، فردین خان جو فیروز خان کے بیٹے اور ماضی کی حسین و جمیل اداکارہ ممتاز کے داماد ہیں۔ فلموں کے کنگ خان یعنی شاہ رخ خان ہوں یا دبنگ خان، سلمان خان، سلمان خان کے بھائی ارباز خان ہوں یا مسٹر پرفیکٹشنسٹ عامر خان! بھارتی فلموں میں خان ہی خان چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں عرفان خان ایک ایسے خان ہیں، جن کا خیال تھا کہ نام کے ساتھ خان لگا ہونا کوئی کمال نہیں، اصل کمال فن کا ہے۔
اسی لیے شاید وہ اپنے نام کے ساتھ خان لگانا، اس لیے ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ 2016ء میں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرے نام کے ساتھ لگے ’’خان‘‘ کے لاحقہ کے تناظر میں میری اداکاری کو مت جانچیے، میری شناخت میرے نام کے ساتھ لگا خان نہیں، بلکہ میرا کام ہی میری پہچان ہے۔ میں اپنے کام کے حوالے سے پہچانا جانا چاہتا ہوں۔ نام کے حوالے سے ایک بات اور کہ انہوں نے اپنے نام عرفان کے انگریزی ہجے میں ایک حرف کا اضافہ کردیا یعنی پہلے ان کا نام Irfan لکھا جاتا تھا جو انہوں نے "R" کی اضافت کے ساتھ Irrfan کردیا یعنی عرفان میں ’’ر‘‘ پر زور دیا جائے۔
نام سے کسی پر کیا اثر پڑتا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں، لیکن عرفان خان کی اداکاری، مکالمات کی ادائیگی، چہرے کے تاثرات بہت اثرانگیز تھے۔
7؍جنوری 1967ء کو راجستھان کے علاقے ٹونک میں پیدا ہونے والے صاحب زادہ عرفان خان کو بچپن میں فلمیں دیکھنے کی بھی اجازت نہ تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اداکار بننے کا فیصلہ کیا اور 80ء کی دہائی میں دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما میں داخلہ لے لیا۔ اداکاری کو اپنا پیشہ بنانا عرفان خان کا دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ اگرچہ ابتدا میں انہیں فلموں میں مرکزی کردار نہیں ملے۔ تاہم ٹیلی ویژن پر وہ نظر آتے رہے۔
عرفان خان کی محنت اور صلاحیت کا پھل انہیں اس وقت ملا، جب انہیں ایک برطانوی فلم ’’دی وائرر‘‘ (The Warrior) میں کام کرنے کی آفر ہوئی۔ اس فلم کے بعد عرفان خان کو یکے بعد دیگرے ایسی فلمیں ملیں، جس میں انہیں اپنی اداکاری کے جوہر بھرپور طریقے سے دکھانے کے مواقع ملے۔ عرفان خان کی وہ فلمیں جنہیں دُنیا بھر میں سراہا گیا اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ’’لائف ان اے میٹرو‘‘ (Life in a Metro) ’’غنڈے‘‘ ’’جذبہ‘‘ ’’بلو باربر‘‘ ’’پیکو‘‘ ’’تلوار‘‘ اور ’’نیویارک‘‘ سمیت ان کی بہت سی فلمیں ہیں، جنہیں شائقین نے پسند کیا۔
عرفان خان کی فلموں کی خاص بات یہ ہے کہ جیسے ان کا اپنا خود کا اسٹائل ذرا جداگانہ تھا۔ کملا کی موت، ایک ڈاکٹر کی موت، ان کی ایسی فلمیں ہیں جن میں انہوں نے بھرپور اداکاری کی۔ اگرچہ ان فلموں کے نام ذرا ہٹ کے ہیں۔ تاہم عرفان خان بھی ان میں ذرا ہٹ کے ہی نظر آئے۔ عرفان نے اپنے فنی کیریئر میں بہت سے ایوارڈ اور اعزازات حاصل کیے۔ نیشنل فلم ایوارڈ، ایشین فلم ایوارڈ، فلم فیئر ایوارڈ کے علاوہ عرفان خان کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں پدما شری سے بھی نوازا گیا ہے۔ کرینا کپور، صبا قمر، لارا دتہ، کونکونا سین، تبو، شبانہ اعظمی، سپریا پھاٹک، پریانکا چوپڑہ، کترینا کیف، دپیکا پڈکون، ایشوریا رائے سمیت بہت سی صف اول کی نامور فن کارائوں کے ساتھ عرفان خان نے فلموں میں کام کیا۔ ’’بلو باربر‘‘ عرفان خان کی ایک ایسی فلم تھی، جس میں وہ ایک باربر یعنی حجام کے روپ میں نظر آئے۔
اس فلم میں ان کے مقابل لارا دتہ تھیں، جب کہ شاہ رخ خان ایک مشہور فلمی سپر اسٹار کے کردار میں جلوہ گر تھے۔ ’’بلو باربر‘‘ میں عرفان خان نے ایسے جم کے اداکاری کی کہ کیا کہنے۔ فلم کے اصل ہیرو وہی ٹھہرے۔ شاہ رخ خان کے بھرپور گلیمرس کردار کے باوجود عرفان خان نے انے کردار میں خود کو منوایا اور خوب داد سمیٹی۔ فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کی دُنیا میں بھی عرفان خان نے خود کو منوایا۔ علی سردار جعفری کی مشہور ڈراما سیریز ’’کہکشاں‘‘ میں انہوں نے معروف شاعر مخدوم محی الدین کا کردار بخوبی نبھایا۔ ’’سارا جہاں ہمارا‘‘ ’’بنے کی اپنی بات‘‘ ’’شری کانت‘‘ وغیرہ کے علاوہ ان کے ٹی وی ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے۔
عرفان خان کو کرکٹ کھیلنے کا بھی شوق تھا۔ اپنی علالت کے باعث جب وہ لندن کے ایک اسپتال میں زیرعلاج تھے، تو بالکنی سے باہر لارڈز کا میدان دیکھ کر اپنے بچپن کے شوق کی یاد تازہ کرتے تھے۔ تقریباً ایک برس تک ان کا علاج لندن کے اسپتال میں رہا ،پھر وہ واپس ممبئی آگئے، جہاں امبانی اسپتال میں ان کو اس وقت داخل کیا گیا ، جب ان کی آنتوں کی تکلیف بڑھ گئی۔
28؍اپریل کو وہ ایڈمٹ ہوئے اور اگلے دن یعنی 29؍اپریل کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ عرفان خان کے گزر جانے سے ان کے پرستاروں کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ ان کے سوگواروں میں ان کی بیوہ اور دو بیٹے بھی شامل ہیں۔ اللہ، عرفان خان کی مغفرت کرے۔ وہ باکمال اداکار تھے، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔