• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کورونا‘‘ کے معاشی اثرات سے متاثر، اوور سیز پاکستانی

وزیراعظم عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا متاثرین کے لیے قائم کیے گئےریلیف فنڈ میں رقم جمع کروائیں،اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھاکہ اوورسیز پاکستانیوںنے ہمیشہ مشکل گھڑی میں ہم وطنوں کی مدد کی ہے۔ اب کورونا پر قابو پانے کے لیے وزیراعظم کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں سے عطیات حاصل کرنے کے لیےویب سائٹ لانچ کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری نے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک ویب سائٹ لانچ کی جا رہی ہے تاکہ وہ وزیراعظم کے کوروناریلیف فنڈز میں عطیات جمع کرا سکیں ۔ 

ویب سائٹ میں ایک خصوصی آپشن رکھا جا رہا ہے،جس کے تحت دنیا بھر میں کہیں بھی پاکستانی اپنے غریب پاکستانی بھائیوں کے لیےراشن اور خوراک کی ذمہ داری اٹھا سکیں گے۔زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ٹائیگر فورس میں اوورسیز پاکستانیوں کو بھی بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کی رجسٹریشن کے لیے جلد الگ پورٹل قائم کیا جا رہا ہے۔اوورسیز ٹائیگر فورس بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو راشن اور خوراک کی فراہمی میں حکومت پاکستان کی مدد کرے گی،لیکن کورونا نے پوری دنیا کی معیشت ، روزمرہ زندگی کو جہاں مفلوج کردیا ہے، وہیں اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستانیوں سمیت بیشتر گھر، ادارے، دفاتر بند ہونے کی وجہ سے نہ صرف امریکا، یورپ، یواے ای، پورے خلیج ممالک اور سعودی عرب معاشی مسائل سے دوچار ہیں ، وہ ممالک جن کی معیشت پہلے ہی کمزور یا کمزور ترین تھی ،اس وبانے ان ممالک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ہے۔ نہ صرف کمزور معیشت کے حامل ممالک بلکہ مضبوط معیشت کے حامل ممالک بھی نئی حکمت عملی اپنانے اور معیشت کو کم از کم نقصان ہونے کی پالیسیوں پر گامزن ہیں ۔ابھی تک اس شیطانی وائرس کے خاتمے کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکی ہے ۔

کشمیر میں نافذ چھے ماہ سے زائد عرصے ’’بھارتی لاک ڈائون ‘‘کی سنگینی سے اب بھی دنیا ناواقف ہے۔ ادھر مسجد الحرام کے ممتاز اسلامی اسکالر، مدرس وخطیب مولانا مکی الحجازی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں فحاشی و عریانی پھیلنے کی صورت میں ایسے عذاب نازل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ انسانیت پر ظلم و بربریت کی شکل میں بھی ایسا ہوتا ہے۔جیسا ریاست کشمیر کو ہندوستان نے لاک ڈاون کیا آج اللہ نے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کردیاہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو پریشان یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ مشکل کی اس گھڑی میں سب مسلمان اللہ کی طرف رجوع کریں ۔ نبی کریم ﷺکی سنت کو فالو کرتے ہوئے نوافل ادا کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ استغفار کریں، میرا پیغام دنیا بھر کے مسلمانوں سے کے لیے ہے۔

اب وائرس کی بناء پر ہونے والے دنیا بھر میں لاک ڈائون کی صدائیں گونجنے لگی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ لاک ڈائون ہوتا کیا ہے ؟ معیشت کی تباہی سے اٹھنے والے خدشات کا ذکر دنیا کررہی ہے اور ادھر ذوالفقار بخاری جنہوں نے اسلام آباد میں بیٹھے یہ اندازہ لگا لیا کہ پوری دنیا میں رہنے والے پاکستانی دس بیس ڈالر نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ رقم وزیر اعظم کے خصوصی ریلیف فنڈ میں دیں گے۔ ذلفی بخاری نے یہ امید لگاتے ہوئےکہا ہے کہ اوورسیز پاکستانی حکومت پاکستان کی ریلیف کی کوششوں میں مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ 10ہزار ڈالر covid.ophrd.gov.pk ویب سائٹ کے ذریعے بھیج سکیں گے، ہم نے ویب سائٹ پر مختلف آپشن رکھے ہیں ،جن کے ذریعے اوورسیز پاکستانی مختلف خاندانوں کی مدد کرسکتے ہیں ،جو اس مشکل وقت میں اپنا گھر چلانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ ذوالفقار بخاری نے اوورسیز پاکستانیوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ قوم کی اس مشکل گھڑی میں دل کھول کر عطیات دیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے مکمل لاک ڈائون کی مخالفت کی ہے ، اس کی وجہ اور ان کی توجہ اس طرف تھی کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں لاک ڈائون کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر روزی کما کر آدھا پیٹ کھانے والا ، اپنے بچوں کو ایک کے بجائے آدھی روٹی کھلانے والا، اس آدھی روٹی کا راستہ بھی بندہونے کی وجہ سے کیا کرے گا۔ 

بہ حیثیت وزیر اعظم یقیناًیہ ان کی ذمہ داری تھی اور ہے ، جس کا وہ احسن طریقے سے اظہار کررہے تھے،مگر زندگی اور مو ت کے اس کھیل میں لاک ڈائون اور احتیاط ایک اہم عنصر تھا اور ہے۔یہ وبا اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے وہ گزشتہ حکومتوں کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے اور خزانہ خالی ہونے کا شور بھی کرتی ہے لیکن وصولی یا نئے انتخابات کے آتے آتے بھی خزانہ خود وہ حکومت بھی خالی چھوڑتی ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضوں کا بوجھ لاد کے چلی جاتی ہے

2018ء میں بھی یہ ہی ہوا ، مگر پاکستان کی تاریخ میں ایسا ہوا کہ جو بھی ملکی خزانہ کے خالی ہونے کے ذمہ داران تھے ، انہیں قانونی شکنجے میں جکڑنے کابیانیہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنایا،جس سے عوام کے لیے ملک کی ایک بہترین صبح کی نوید اور خواب ملا تھا، ساتھ ہی تباہ شدہ معیشت کو سہارادینے کے لیے وزیر اعظم نے اپنی نیک نامی اور credibility کا سہارہ لیتے ہوئے دوست ممالک کے طوفانی دورے کئے، معیشت کو سنبھالادینے کے لیے امداد ، قرض کا سہارا لیا ، دوست ممالک نے پاکستان کی درآمد اور برآمد کو سہارادینے کے لیے بنکوں میں زرمبادلہ کاذخائر جمع کروائے ۔ کرپشن کی جانے والی رقوم بھی واپس نہ ہوسکیں،کہ اب موجودہ وائرس کرونا نے وزیر اعظم کی ان تھک محنت پر کاری ضرب لگائی اورلاک ڈائون کی بناء پر ملک کی وہ آبادی جو روزانہ کی اجرت ، یا چھوٹے کاروبار سے منسلک ہے اسےسہارا دینے کے لیےایک بڑی رقم کی ضرورت پھر آن پڑی ہے ۔

پاکستانی سیاست میں مخیر لوگوں کی کمی نہیں مگر سیاست میں موجود مخیر تو ایسے مواقع پر حکومت کو مزید بلیک میل کرتے ہیں، تھوڑا خرچ کرتے ہیں اور نام ونمود کے لیے تصاویر فوٹو سیشن کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اوور سیز پاکستانیوں سے درخواست کی کہ وہ وزیر اعظم کے ریلیف فنڈز میں کم از کم 35 ڈالرز ضرور بھیجیں یہاں ’’ایک مرتبہ پھر اس لئے لکھا ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت کو جب فنڈز درکار ہوتے ہیں تو اوور سیز پاکستانیوں سے اپیل کی جاتی ہے ۔سعودی عرب میں برسرروزگار پاکستانی ہمیشہ قانونی ذرائع سے رقم پاکستان بھیجتے ہیں اور اس سال مارچ میں 2020 ء صرف ایک ماہ قبل ہی گزشتہ ریکارڈتوڑتے ہوئے 452,27 ملین ڈالرز زرمبادلہ پاکستان روانہ کیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ موجودہ حکومت یا گزشتہ کسی بھی حکومت کی طرف سے خصوصی طور پر سعودی عرب میں برسرروزگار پاکستانیوں کے کسی بھی مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔موجودہ حکومت کو دو سال ہونے کو ہیں سعودی عرب کے پاکستانیوں نے مشیر اوورسیز پاکستانی ذلفی بخاری کی شکل نہیں دیکھی ۔ موجودہ صورتحال میں سعودی عرب میں بسنے والے تقریبا چالیس ہزار خاندان نئی مشکلات کا شکار ہیں، بیشتر ادارے بند ہیں یا ملازمین کو

گھروں سے کام کرنے کی رسائی دی گئی ہے، تاہم کئی اداروں نے ملازمین کی تنخواہوں میں 40فیصد کٹوتی کردی ہے، بعض ادارے ملازمین کی چھانٹی بھی کررہے ہیں، یہ لوگ مکان کے کرائے، بچوں کی اسکول فیسیں، ماہانہ اشیائے خورونوش کی خریداری کاکس طرح انتظام کریں گے۔ درجنوں افرادپاکستان میںاپنے اہلخانہ کو ترسیل زر تک نہیں بھیج پا رہے ہیں۔مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور کئی شہروں کے مکمل لاک ڈاؤن ہونے سے چھوٹے موٹے کاروبار، ٹیکسی ڈرائیورز جن میں بڑی تعداد پاکستانی ڈرائیوروں کی ہے، گزشتہ دو ماہ سے بیروزگار بیٹھے ہیں، ہزاروں پاکستائی جو یہاں مقیم ہیں، یا توخود وطن جانا چاہتے ہیں یا فیملی کو بھیجنا چاہتے ہیں، بین الاقوامی پروازوں کی معطلی کے باعث سفر نہیں کرسکتے۔

ہزاروں پاکستانی جو چھٹی گزارنے پاکستان گئے تھے، وہ واپسی کی راہ تک رہے ہیں، تقریباًیہی صورتحال دوسرے ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کی بھی ہے۔ تمام صورتحال میں وزیراعظم خود بتائیں کہ اوورسیز پاکستانی محنت کش کس طرح آپ کےفنڈ میں مالی امداد کی ترسیل کریں،پھر کورونا کے بعد کے معاشی مسائل میں گھرے یہ بے یارومددگار اوورسیز پاکستانی جب واپس وطن پہنچیں گے تو ان کے لئے او پی ایف یا اوورسیز کی وزارت نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے؟ اس کا جواب نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا، کیونکہ کاغذوں پر تیار درجنوں منصوبے اعلان کے بعد سرد خانے یا بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہوتارہے گاکہ نیا پاکستان، تبدیلی، کرپشن پر سخت سزادینا، چاروں صوبوںکو آپس میں ایک یونٹ نہ بنانے کا عزم اور نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔ 

ان سب کے علاوہ یہاں مزید مسائل بھی درپیش ہیں،جن میں جدہ ، ریاض ، طائف ، دمام ، جبیل اور دیگر شہروں میں پاکستانی اسکولز، جس کے سرپرست اعلی سفیر پاکستان ہیں، چالیس ہزارسے زائد طلباء و طالبات زیرتعلیم ہیں ، فیسوں کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے، ان اسکولوں میں اساتذہ و اسٹاف بھی ہیں، والدین میں ملازم پیشہ افراد جن اداروں سے وابستہ ہیں ان میں اکثر ملازمین لاک ڈائون کی وجہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اور گھروں پر بیٹھے ہیں۔ 

اسکولوں کی انتظامیہ والدین کو فیس جمع کرانے کے نوٹس بھیج رہےہیں ، کچھ اسکول آن لائن تعلیم دے رہے ہیں ( آن لائن میں والدین کو ہی ہوم ورک کرنا پڑتا ہے) فیسیں نہ ملے تو ان اسکولوں کے اساتذہ بھی تنخواہوں سے محروم ہوں گے۔صرف چند انگریزی میڈیم اسکول ہیں،جہاں فیسیں زائد ہیں، وہا ں reserve فنڈز بھی ہیں ۔ اسکولوں کی انتظامیہ نے حالیہ دو ماہ کی ٹرانسپورٹ کی فیس معاف کردی ہے ، اس فنڈ میں سے اگر انتظامیہ چاہے تو بچوں کی فیسوں کی ادائیگی میں تعاون کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین