گزشتہ چار سال سے پاکستانی فٹ بال معاملات سدھرنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں فٹ بال کی عالمی تنظیم نے پاکستانی فٹ بال کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے پانچ رکنی نارملائزیشن کمیٹی کا اعلان کیا جس کا چیئرمین حمزہ خان کو مقرر کیا گیا اور بقیہ چار اراکین میں سے دو رکن فیصل صالح حیات اور دو اشفاق شاہ (گروپ) کے شامل تھے۔ اس دوران حمزہ خان نے کمیٹی میں سیکرٹری کیلئے اپنی صوابدید پر کرنل (ر) مجاہد ترین پھر حارث جمیل اور پھر اس کے بعد پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون مینزے زینلی کو سیکرٹری کے عہدے پر تعینات کیا۔گزشتہ سات ماہ کے دوران نارملائزیشن کمیٹی نے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں کیا اور نہ ہی اسے عوامی حلقوں اور میڈیا کے سامنے پیش کیا۔
چیئرمین سمیت اس کا کوئی عہدیدار میڈیا سےسات ماہ کے دوران فیفا کی جانب سے دیئے گئے امور نمٹانے کے حوالے سے بات چیت کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ پھر اچانک ہفتہ 18 مارچ کو جب دنیا کرونا وائرس سے لڑنے میں مصروف تھی تو نارملائزیشن کمیٹی کے سربراہ حمزہ خان نے بار بار اپنے اوپر فیفا کی جانب دیئے جانے والے بھاری مشاہرےلینے اور پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی جانب سے ساڑھے سترہ کروڑ روپے سے اللے تللے کرنےاور موجیں اڑانے کے الزامات لگنے پر ویڈیو لنک کے ذریعے وضاحت پیش کرنے کی ٹھانی اور پاکستان کے چند اسپورٹس رپورٹرز کو گزشتہ سات ماہ میں پاکستانی فٹ بال کے سابق سربراہ اور ان کی ٹیم اور فٹ بال سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگوں پر ان سے تعاون نہ کرنے کی توجیہات پیش کیں۔ ان کا اصل مدعا " ہمارا کام جاری تھا اور کارونا وائرس کا حملہ پاکستان پرہوگیا اس وجہ سے فیفا کی جانب سے دیا گیا ٹاسک مکمل نہ ہوسکا تھا" وہ پریس بریفنگ میں حمزہ خان صرف اور صرف اپنی تعیناتی کی مدت بڑھانے پر زور دیتے رہے، اب وہ چاہتے ہیں انہیں فیفا نے جون 2020 ء اپنا کام نمٹانے کا جو ٹائم فریم دیا تھا اس میں مزید چھ ماہ کا اضافہ کیا جائے۔
ان کی اس ڈیمانڈ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ وہ اپنی مدت ملازمت میں اضافہ چاہتے ہیں۔ فیفا کو بھی ان سے پوچھنا چاہئے کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران انہوں نے کیا کیا جو اب چھ ماہ مزید مانگ رہے ہیں اور ایک بڑا امائونٹ ان اور ان کے ساتھیوں کو دیا جارہا اس کا مصرف کہاں اور کن کن امور میں لارہے ہیں۔ فیفا کی جانب سے دیئے جانے والے مشاہرے اور سابق فٹ بال فیڈریشن کی جانب سے ساڑھے سترہ کروڑ روپے جو ان کے حوالے کئے گئے تھے اس کا بھی حساب کتاب دینے کیلئے حمزہ خان تیار نہیں ہیں۔
ویڈیو لنک کے ذریعے حمزہ خان نے جو صحافیوں سے باتیں کیں اس سے اکثریت مطمئن نہ تھی۔ انہوں نے گزشتہ سات ماہ کے دوران کسی بھی کئے گئے کام کے حوالے کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا بس سارا نزلہ پاکستان فٹ بال کے سابق عہدیداروں پر ڈالنا درستسمجھا شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستانی اسپورٹس میڈیا بیوقوف ہے جو ان کی توجیہات سے مطمن ہوجائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے معاملات انتہائی گھمبیر ہیں، کئی برسوں سے فٹ بال پر حکمرانی کرنے والے کچھ بتانے کیلئے تیار نہیں، اپنے طور پر ساری چیزیں اکٹھی کررہے ہیں، فیفا اور اے ایف سی کی ہدایت پر امور انجام دے رہے ہیں، کرونا وائرس کی وجہ سے کام مکمل نہیں ہوسکا اس لئے فیفا کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کو بڑھانے کی درخواست کی ہے ۔امید ہے رواں سال کے آخر تک پاکستان فٹ بال کے تمام امور نمٹا کر منتخب نمائندوں کے حوالے کردیں گے۔ویڈیو لنکن بات چیت کے موقع پر انہوں نے تیسری بار تبدیل کئے جانے والی پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی سیکرٹری جنرل مینزے زینلی کا بھی دیدار کرایا ۔
یہ ساری میڈیا بریفنگ انہوں نے میڈیا معاملات دیکھنے کیلئےنئے تنخواہ دار میڈیا منیجر کے ذریعہ ارینج کرائی اور اسپورٹس میڈیا کے پابند کردیا کہ جس کوبھی حمزہ خان یا خاتون سیکرٹری سے بات کرنی ہے پہلے وہ وقت لیں اور اس کے بعد ان لوگوں سے بات ہوسکتی ہے۔ اسپورٹس میڈیا کو پابند کرنے کی یہ حمزہ خان کی ایک بھونڈی حرکت قرار دی جاسکتی ہے۔ ویڈیو لنک پریس بریفنگ میں میں جب حمزہ خان سے پوچھا گیا کہ آپ پر کرپشن کے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جارہے ہیں پہلے فیصل صالح حیات گروپ آپ کی مخالفت کررہا تھا لیکن اب اشفاق شاہ اور عامر ڈوگر اور دیگر لوگ بھی الزامات لگا رہے ہیں جس پر ان کا کہنا تھاکہ مجھے پتہ ہے میرے خلاف ہر روز دو دو شکایتی لیٹرز فیفا کو بھیجے جاتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران مجھے فارغ کردیا جاتا لیکن فیفا اور اے ایف سی نے مجھے مینڈیٹ دیا ہوا ہے وہ مجھ پر اعتماد کررہے ہیں۔
مجھ پر لگائے تمام کرپشن کے الزامات بے بنیاد ہیں، میں نے کراچی میں ایک کمرہ کا آفس بنایا ہوا ہے اور کم سے کم خرچہ کرکے کمیٹی کے امور انجام دے رہا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکرٹری اور میڈیا اور دیگر عہدوں کیلئے کم سے کم تنخواہوں پر ماہر لوگوں کی خدمات حاصل کی ہوئیں ہیں۔ کسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی حمایت کروں گا۔اب پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے سیکرٹری اور میڈیا نمائندے کی باضابطہ تعیناتی ہوگئی ہے امید ہے میڈیا کوکوئی شکایت نہیں ہوگی۔