• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا آپ کو تھانہ کچہری سے بچائے ۔ بد قسمتی سے اگر کبھی آپ کا واسطہ کورٹ کچہری سے پڑ گیا تو وہاں ایک منظر آپ ضرور ملاحظہ فرمائیں گے ۔ عدالتیں کھلنے سے قبل ہی کئی لوگ پھولے ہوئے کپڑے کے تھیلے اور شاپر اٹھائے بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہل رہے ہوں گے ، جیسے انصاف بھی ان کی جھولیاں بھرنے کو اسی طرح بے تاب ہے ۔ شام کو یہی شائقین انصاف اپنی جیب کا بوجھ ہلکا کر کے موٹر سائیکل کو کِک لگاتے ہیں یا بوجھل قدموں سے لاری اڈے کی طرف رواں ہو جاتے ہیں ۔ واپس پہنچنے پر لوگ ان سے پوچھتے ہیں ’’مقدمے کا کیا بنا؟‘‘ یہ تھکے لہجے میں جواب دیتے ہیں ’’تریخ ہو گئی اے ‘‘ ( تاریخ ہو گئی ہے )
ان ’’شائقین انصاف‘‘ میں جہاں بہت سے مظلوم اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے والے ہوتے ہیں ، وہاں کپڑے کے تھیلوں اور شاپروں کے حامل ہم پیشہ ور دیہاتی مقدمے باز بھی قابل لحاظ تعداد میں رونق افروز ہوتے ہیں ، جن میں زیادہ تر مخصوص وضع قطع کے حامل بابے شامل ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی کچہری ہی میں گزرتی ہے ۔ہمارے یہ تھیلے اور شاپر زمینوں کے کاغذات ، انگریز دور سے اب تک کے فرد ملکیت ، رجسٹریاں ،انتقالات ،عکس ہائے شجرہ ،اشٹام پیپرز اور سابقہ مقدمات کی نقول وغیرہ سے فربہ ہوتے ہیں ، جو ہمیں جان سے بھی عزیز ہیں کیونکہ ہمارے ہنگامہ ہائے شوق کو یہی مڑے تڑے اور پھٹے پرانے کاغذات ہی زندہ رکھتے ہیں ۔ اگر ہمارے بچوں کے پائوں میں جوتی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں مگر اپنے مقدمے کے اخراجات پورے نہ کر سکنے پر شریکوں میں ہماری ناک ضرور کٹ جاتی ہے ۔ ہم مضافاتی اور بارانی حضرات چند مرلوں کے لئے آپس میں لڑتے ہیں اور پھر ایک نئے فوجداری یا دیوانی مقدمے کی پیروی کے لئے کروفر سے کچہری میں حاضر ہو جاتے ہیں ۔ ہم فریقین پندرہ بیس یا تیس سال تک اپنا اقتصادی کباڑا کر کے جب انصاف سے اپنی اپنی جھولیاں بھر لیتے ہیں تو پھر آپس میں صلح کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دشمنوں نے ہمارے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں ورنہ ہم تو روزِ او ل ہی سے آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ بسا اوقات اس عرصے کے دوران مقدمات کا فیصلہ بھی ہو جاتا ہے ۔ تاہم چونکہ ایسے مقدمات کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ، لہذا راضی نامہ ہو یا عدالتی فیصلہ ، اکثر ’’پرنالہ وہیں رہتا ہے‘‘ ۔ ایسے میں کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جائیداد متدعویہ کی قیمت کے مقابلے میں مقدمے پر کہیں زیادہ خرچ ہو چکا ہوتا ہے ۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ ناک رہ جاتی ہے۔
موٹے تھیلوں والے یہ پیشہ ور مقدمے باز مقدمات کے بڑے ٹھرکی ہوتے ہیں اور کچہری جائے بغیر ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ علاقے میں کوئی بھی زمین فروخت ہو رہی ہو ، اس پر تعمیر شروع ہو یا اس کا کوئی تنازع کھڑا ہو جائے تو وہ اس میں اپنی ٹانگ اڑانا اور دعویٰ تقسیم ، استقرار حق یا حق شفع کے تحت عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں ۔ خدا وکلاء کا رزق اور بھی کشادہ کرے ، وہ بھی ہمارے ان شوقیہ ’’مقدمہ بازانہ‘‘ جذبات کو خوب چتائونی دیتے ہیں۔ وہ ہمیں کبھی نہیں کہتے کہ اس جائیداد پر تمہارا حق نہیں ہے ۔ جو بھی کلائنٹ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے وہ وکالت نامے پر انگوٹھا لگا کر ہی وہاں سے نکلتا ہے ۔ ویسے وکلاء کا بھی قصور نہیں اگر کوئی قانون دان ہمیں سچ بتائے کہ اس زمین سے تمہارا کوئی تعلق نہیں یا فیس کم مانگے توہم کہتے ہیں کہ یہ ماٹھا وکیل ہے ، کہیں اور چلتے ہیں ۔ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ورنہ ہم آپ کو ان دیوانی مقدمات کی تمام اقسام بھی بتاتے ۔ دیہات میں عورتیں اپنی وراثتی جائیداد سے بھائیوں کے حق میں دستبردار ہو جاتی ہیں اور اپنا حصہ ان کے حق میں ہبہ کر کے باضابطہ منتقل کر دیتی ہیں۔ بعض اوقات یہ منتقلی زبانی ہوتی ہے اور کاغذات مال میں ان کا حصہ موجود رہتا ہے ۔ پھر جب بچے بڑے ہوتے ہیں اور جائیدادوں کی مارکیٹ ویلیو بڑھ جاتی ہے تو ایسی خاتون اپنے خاوند سے باہم صلاح و مشورہ کرکے بھائیوں سے اپنا حق مانگتی ہے ۔انکار کی صورت میں وہ دیوانی عدالت میں تقسیم کا دعویٰ دائر کر دیتی ہے ۔ ایسے میں جب بڑے بوڑھے اسے مروجہ روایات سے انحراف پر ’’خوف خدا‘‘ یاد دلاتے ہیں تو وہ کہتی ہے کہ مجھے تو جائیداد کا کوئی لالچ نہیں لیکن کیا کروں ، منجھلا بیٹا نہیں مان رہا ۔ پھر برسوں تک بہن بھائی عدالتوں میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے رہتے ہیں ۔ گاہے خاتون کی زندگی ہی میں اُسے اپنا حق مل جاتا ہے لیکن زیادہ تر اس کی وفات کے بعد منجھلے بیٹے ہی موج کرتے ہیں ۔ عرض یہ کرنا ہے کہ کچہری کی رونقیں ایسے ہی لوگوں کے دم سے ہیں ۔ وکلاء ، منشیوں اور کلرکوں وغیرہ کے خرچے اور کینٹین کے ٹھیکے بھی انہی کیو جہ سے چلتے ہیں ۔ اگر ہمارے قانون ساز ادارے مہذب ملکوں کی طرح فوجداری قوانین میں ترمیم کر کے ایسے جرائم کو فہرست سے نکال دیں ، جن سے ریاست یا کسی دوسرے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے ۔
حکومت جھوٹے پرچوں کو بھی کنٹرول کر لے ۔ نیز ہمارے شوقیہ مقدمے باز بابے اور جوان بھی اس شغل سے باز آ جائیں اور دوسروں کو ان کا حق دینے پر آمادہ ہو جائیں تو یقین فرمائیں کہ کچہریاں ویران ہو جائیں اور کینٹین کے ٹھیکیدار بھاگ جائیں ۔ ہمارا جسٹس سسٹم اتنا بوسیدہ ، پیچیدہ اور طویل ہے کہ مقدمات ’’ دادا لوے ، تے پوتا ہنڈاوے‘‘ کی مثل نسل در نسل چلتے ہیں ۔ دائری دعویٰ ، سمن ، تعمیل سمن ، جواب دعویٰ، اعتراف و انکشاف، وضع تنقیحات ، شہادت، جرح ، بحث، فیصلہ ،ڈگری ، تعمیل ڈگری ، درمیانی درخواست ہائے ، ان پر حکم اور پھر اپیل در اپیل …کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘…یہاں تو دھنیا چوری کے ملزم کی ضمانت بھی سپریم کورٹ کے بنچ میں جا کر ہوتی ہے ۔ ذرا سوچئے کہ ایک ہزار روپے کا دھنیا چرانے کے ملزم کی درخواست پر سول کورٹ ،سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیسی کیسی قانونی موشگافیاں اور دھواں دھار بحثیں ہوئی ہوں گی اور عدالتوں کا کتنا وقت ضائع ہوا ہوگا،جبکہ مقدمے کا ٹرائل تو ابھی ہونا ہے ۔ ہمارا نظام انصاف ہر اُس آدمی کو سپورٹ کرتا ہے جو مقدمے کو طول دینا چاہے ۔ اس کار خیر میں فریقین کے علاوہ انتظامیہ ،پولیس ،عدالتوں اور بار کا حصہ بقدر جثہ بھی شامل ہے ۔ یہاں جو فریق، جج یا وکیل مقدمے کا ٹرائل جلد مکمل کرنا چاہے اُسے کچھ اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ انصاف کے متعلق ایک اور دلچسپ بات نجی تقریب میں ایک جج صاحب نے کہی کہ مدعی ، مدعا علیہ یا ملزم ، پولیس اور گواہان اپنا اپنا جھوٹ لے کر عدالت میں حاضر ہو جاتے ہیں اور جج سے کہتے ہیں کہ لو ، اب تم ہمارے ساتھ انصاف کرو۔ اس بات سے کس کو انحراف ہے کہ ہم سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں بولتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنا حق حاصل کرنے کیلئے بھی جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔فوجداری مقدمات میں جھوٹ کی تفصیلات پر پھر کبھی بات کریں گے ۔ اس وقت صرف ایک سوال ہے کہ اگر آپ کو اس نظام انصاف سے کچھ واسطہ ہے تو دل پرہاتھ رکھ کر فقط حق شفع کے مقدمات کے متعلق بتائیے کہ ان میں طلب مواثبت سے طلب اشہاد اور شہادتوں سے بحث تک کون سی چیز سچ ہوتی ہے ؟
بہت ممکن ہے کہ اپنی کم علمی اور کالم کے محدود دامن کی بنا پر ہم اپنا موقف واضح نہ کر سکے ہیں ۔ البتہ آخر میں فاضل جج صاحبان کے فرمودات کے چند اقتباسات ضرور نقل کریں گے کہ شاید اس طرح ہم اپنی بات اپنے آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں ۔ اگلے دن گورنمنٹ کالج لاہو رکی تقریب میں عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جناب جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا ’’بد قسمتی سے ناکام جسٹس سسٹم کی وجہ سے ہم ترقی نہیں کر رہے اور اس کا ذمہ داروہ جج ہے جس کی ذمہ داری عدل اور انصاف فراہم کرنا ہے ‘‘۔فاضل جج نے بتایا کہ کچھ روز پہلے انہوں نے ایک مقدمے کا فیصلہ سنایا جو 54سال پرانا تھا ۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ ملک میں انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ججز کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی ریٹائرمنٹ پر پچھلے سال 9ستمبر کو اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’نظام عدل کی تباہی میں جہاں ججوں اور وکیلوں کا ہاتھ ہے ،وہاں حکومت یا انتظامیہ بھی ذمہ دار ہیں۔ ریاست کے تمام اعضا ء کو برملا اعتراف کرنا چاہئے کہ جس سستے اور فوری انصاف کا وعدہ آئین عوام سے کرتا ہے اس کو نبھانے میں فی الحال ہم کامیاب نہیں ہوئے ’’…انہی فاضل جج صاحب نے گزشتہ برس 9جون کو سینئر وکیل جناب علی ظفر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے دوران ریمارکس دیئے ’’بچوں کے بچے مر جاتے ہیں ، فیصلے نہیں ہوتے ‘‘ …رہے نام اللہ کا۔
تازہ ترین