اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں جمع کرائی گئی پولیس رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا، سنگین جرائم کی تفتیش میں تاخیر اور مشکلات پر اسلام آباد پولیس کی رپورٹ میں اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کی رپورٹ کے مطابق لیبارٹری کو بھجوانے کے لیے شواہد کی 5 ہزار روپے پارسل فیس تفتیشی افسر کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
پولیس رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ شواہد کی پارسل فیس نہیں ہونی چاہیے یا اس فیس کی ادائیگی کی ذمے داری ضلعی انتظامیہ لے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوع کا نقشہ بنوانے کے لیے 15 ہزار روپے تفتیشی افسر خود ادا کرتا ہے، ایسا طریقہ کار وضع ہو کہ قتل یا دہشت گردی کے کیسز کا 2 دن میں نقشہ بن جائے۔
پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری کے لیے چھاپہ مارنے کے لیے بھی پولیس کو فنڈز فراہم نہیں کیے جاتے، شواہد کو لیباریٹری معائنے کے لیے بھجوانے میں 2 ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ تفتیشی افسر کو حکامِ بالا کی منظوری کے بغیر شواہد فرانزک لیب بھجوانے کا اختیار ملنا چاہیے۔
پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مدعیٔ مقدمہ بھی کیس درج ہونے کے بعد تفتیش میں تعاون نہیں کرتے، جبکہ اسلام آباد میں فرانزک لیب کا نہ ہونا بھی تفتیش میں تاخیر کی ایک وجہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانزک لیب کی بھاری فیس بھی تفتیشی افسر اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔
پولیس رپورٹ میں ٹرائل میں تاخیر کی 6 بنیادی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی اسپیشل ڈیوٹیاں بھی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیادی وجہ ہیں، جبکہ امن و امان اور وکلاء کی ہڑتالیں بھی ٹرائل میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: اسلام آباد پولیس میں 1018 کانسٹیبلز کی بھرتی مکمل
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے آئی جی پولیس کی رپورٹ کو درخواست میں تبدیل کر کے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالتِ عالیہ کا کہنا ہے کہ یہ آئینی عدالت ان انکشافات پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، آئی جی پولیس کی رپورٹ میں عوامی مفاد کے کئی اہم نکات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ سیکریٹری داخلہ اور چیف کمشنر سمیت سب اس کیس میں فریق ہوں گے۔
عدالت نے ہدایت کی ہے کہ رجسٹرار آفس اس رپورٹ کو درخواست میں تبدیل کر کے فوری سماعت کے لیے مقرر کرے۔