• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اک قیامت ہے جو جاری ہے۔ قدرت کے ہاتھوں بھی اور انسان کے ہاتھوں بھی۔ لاک ڈائون جتنا سخت کرتے ہیں، نرالا کورونا وائرس تنہا ہو جاتا ہے۔ گویا سماجی فاصلہ وبا کو یکا و تنہا کرتا ہے اور انسانی جانوں کا زیاں کم یا تھم جاتا ہے۔ لاک ڈائون نرم کرتے یا ختم کرتے ہیں تو ڈوبتی صنعتوں اور کاروباروں کو زندہ محنت دستیاب ہوتی ہے اور لوگ بھوکوں مرنے سے بچ رہتے ہیں۔ ایسا خوفناک مخمصہ نسلِ انسانی کو شاید ایسے کبھی درپیش نہیں ہوا۔

 وبا سے بچو تو موت، نہ بچو تو بھی موت۔ ابھی کل کی خبر نہیں۔ گو کہ سو سے زیادہ لیبارٹریوں میں کوروناکُش ویکسین کی تیاری کے لیے دن رات کام ہو رہا ہے اور دُنیا بھر کی ادویات سازی کی کثیر القومی کمپنیاں اربوں ڈالرز کی کمائی کے لالچ میں پہلے پہل ویکسین کو منڈی میں لانے کے لیے بےقرار ہیں اور امریکہ اور چین میں محاذ آرائی نے بھی اس مقابلے کو انگیخت دی ہے۔

 لیکن زیادہ تر یہی خیال ہے کہ بہت سی دوسری وبائوں کی طرح شاید انسان کے مدافعتی نظام کے طفیل یا کوروناوائرس ہی کی کسی ارتقائی صورت کے باعث اولادِ آدم کو اس شجرِ ممنوعہ کے ساتھ زندگی گزارنا پڑے جیسے انفلوئنزا یا نزلہ زکام۔ ویسے بھی ایلوپیتھی علامتی علاج یا قوتِ مدافعت کو بڑھانے پہ مرکوز ہے اور مختلف طرح کی ویکسینز نے طرح طرح کے وائرسوں کو لگام دی ہے۔ 

اب بایوٹیکنالوجی، جنیٹک انجینئرنگ اور دیگر جدید سائنسی تحقیقات ہیں جو انسانی جرثومے کو مرکز بنا کر انسانی شفا و بقا کے راز ڈھونڈنے میں لگی ہیں۔ اکیسویں صدی کے پہلے کوارٹر کے ختم ہوتے ہوتے یا پھر اسی دہائی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے ایسے ایسے انقلابات بپا ہوں گے کہ ڈر ہے کہ انسان اپنی ہی بنائی ہوئی مصنوعی ذہانت اور بایوٹیکنالوجی کے ہاتھوں بے کار نہ ہو جائے۔ کوروناوائرس کے حملے نے دُنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ 

اب ہر طرح کے بیوپار اور دھندے کے لیے دفتروں کے چکر لگانے کی ضرورت تیزی سے کم ہوتی چلی جائے گی اور سماجی خدمات جیسے تعلیم و صحت کی فراہمی بھی زیادہ تر اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے بغیر جاری رکھی جا سکے گی۔

ممتاز تاریخ دان یووال نوح حرارے (Yuval Noah Harari) انفارمیشن کے انقلاب، مصنوعی ذہانت اور بایوٹیکنالوجی کے ہاتھوں انسانوں کے جمِ غفیر کے کام کاج سے فارغ کیے جانے کے امکان پر دُنیا بھر کو متنبہ کرنے میں مصروف ہیں کہ فقط چند بڑی سرمایہ دار کارپوریشنز سب کچھ ہتھیا لیں گی اور بیکار طبقات کے جمِ غفیر میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

سرمایہ دار دُنیا کے وہ بڑے لیڈر (جن میں امریکہ، برازیل، روس، ترکی، ایران کے صدور اور برطانیہ، اٹلی و اسپین کے وزرائے اعظم شامل ہیں) جنہوں نے کورونا کو مذاق جان کر اپنے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہا اور احتیاط سے کام نہ لیا، آج وہ سب پچھتاوے کا شکار ہیں اور اُن کی ذہنی کنگالی کے باعث لاکھوں لوگ وبا کا شکار ہو رہے ہیں یا مر رہے ہیں۔ 

اُنہوں نے بڑی کارپوریشنوں کے مفاد اور منڈی کے دھرم کے زیرِ اثر یا تو مکمل تالہ بندی و گھر بندی کی ہی نہیں اور جب کی بھی تو وہ کورونا کے طوفان کی لپیٹ میں آ چکے تھے اور اب اگر وہ تالے کھول رہے ہیں اور کاروبار شروع کر رہے ہیں تو یقین نہیں کہ دوسری لہر کیا بربادی لائے گی۔ 

وہ نہ تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی وارننگز پہ کان دھر رہے ہیں نہ ڈاکٹروں کی صلاح پہ چل رہے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اور وزیراعظم دبائو میںآگئے ہیں۔ بھارت میں بھی اس معاملے پر مرکز اور صوبوں میں مناقشہ چل رہا ہے۔ اور پاکستان میں بھی حکومتِ سندھ کی صائب رائے کو اُلٹا دشنام طرازی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے تو چین سے سرد جنگ تیز کر دی ہے اور کورونا کے پھیلائو کی ذمہ داری چین پہ ڈال دی ہے جبکہ امریکی، برطانوی اور یورپی سائنسدانوں کی تحقیق نے کورونا کے کسی لیبارٹری میں تخلیق پانے کے سازشی نظریہ کو یکسرد ردّ کر دیا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے پہلے چین کے 11 ہزار ارب ڈالرز کے قرضے ضبط کرنے کا اعلان کیا تو فنانشل مارکیٹ سے ایسا سخت ردّعمل آیا کہ اسے اِس اعلان کو واپس لینا پڑا، پھر چینی مصنوعات پہ ٹیرف کا عندیہ دیا تو ساری تھوک مارکیٹ سراپا احتجاج بن گئی۔ 

اصل میں یہ سیاست ہے چونکہ ٹرمپ کو اگلی باری کے لیے الیکشن جیتنا ہے، بھلے چین ہی کیوں نہ مشقِ ستم بنے۔ ہمارے ملک میں بھی ٹرمپ اور برازیل کے صدر جیسی ہونق و متضاد پالیسیوں کا چلن ہے۔ 

وزیراعظم بھی کورونا کے معاملے پہ سیاست کھیل رہے ہیں۔ خواہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا خاتمہ اور اس کی جگہ احساس پروگرام کی ٹامک ٹوئیاں ہوں جس نے BISP کارڈ کی جگہ امدادی رقم کی تقسیم کا ایسا طریقہ نکالا ہے جس میں مستحقین کی زندگیاں کورونا وائرس کی نذر ہو سکتی ہیں، یا پھر ٹائیگر فورس کی تشکیل کا متنازع فیصلہ۔ لاک ڈائون کے بتدریج خاتمے پر کیا کھلے گا اور کیا بند رہے گا اس پر اتنا کنفیوژن مچا ہے کہ خود انتظامیہ معطل ہو کر رہ جائے گی۔ 

اور عید کی خریداری کے رش میں جانے وبا کیا سے کیا واردات کر جائے۔ یہ سیاست نہیں تو کیا ہے۔ یہاں بھی ڈاکٹرز اور میڈیکل ایسوسی ایشنز کی رائے کو وقعت نہیں دی جا رہی۔ فیصلے وہ کر رہے ہیں جن میں زیادہ تر کا پبلک ہیلتھ سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ 

اوپر سے وزیراعظم ہیں جو نہ لاک ڈائون میں سنجیدہ تھے، نہ اُنہیں لاک ڈائون ختم کرنے کی ضروری شرائط پہ بھروسہ ہے۔ لہٰذا گزشتہ روز سے ختم ہوتا ہوا لاک ڈائون ایسے وقت میں ختم ہو رہا ہے جب روزانہ انفیکشن دو گنا ہو گئےہیں اور اموات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او اور دیگر طبی ماہرین کے خیال میں ابھی وبا کا چڑھائو آنا ہے جسے ریاستی ادارے بھی مان رہے ہیں۔ 

تو پھر لاک ڈائون کے بتدریج ختم کرنے کے اعلان کا مطلب ہے کہ سرکار نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ عوام اپنا خود خیال رکھیں یا دوسرے لفظوں میں مرتے ہیں تو مریں۔ ویسے بھی ہمیں جتلایا گیا ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہر ماہ چار ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔ کورونا سے مرتے ہیں یا بھوک سے، ہماری بلا سے۔

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تازہ ترین