• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں عطااللہ شاہ ہاشمی کی سوشل تصویر ’’نوکر‘‘ 1955ء وہ پہلی فلم تھی جس میں ایک بچے کو کہانی کا مرکز و محور بنایا گیا، لیکن فلم کاموضوع اس بچے سے جڑے ماں اورباپ کے کرداروں کا ایثار تھا۔ 1957ء میں 6؍ دسمبر کی تاریخ کو بہ یک وقت ایسی 2؍ سوشل فلمیں منظر عام پر آئیں کہ جو کلی طور پربچوں کے موضوع پر مبنی تھیں۔ رفیق رضوی کی ’’بیداری‘‘ اور شریف نیر کی ’’معصوم‘‘ دونوں کی ہی فلموں کا مرکزی کردار بھارت سے آنے والے چائلڈ اسٹار رتن کمار نے ادا کیا۔ 

شریف نیر کی ’’معصوم‘‘ کی کہانی ایک ایسے کم سن بچے کے گرد گھومتی ہے کہ جس کا باپ ناگہانی طور پر موت کا شکار ہوجاتا ہے، گھر کے سروائیول کی خاطر یہ کم سن بچہ اہل خانہ کی کفالت کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ کمسنی میں روزگار کے حصول کے لیے ایک بچے کی جدوجہد، مشکلات اور ایثار کو شریف نیر نے بہت عمدگی سے پیش کیا۔ رتن کمار نے محنت کش بچے کے رول کو خُوب صورتی سے نبھایا۔ 

فلم کاایک گیت جو رتن کمار اور یاسمین پر پکچرائزڈ تھا ’’جانا ہے سسرال تو لے لو چوڑیاں‘‘ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا، لیکن ’’معصوم‘‘ کے مقابلے ریلیز ہونے والی رفیق رضوی کی ’’بیداری‘‘ کو عوامی حلقوں میں زیادہ پذیرائی ملی، کیوں کہ اس کا موضوع تعلیم سے متعلق تھا کہ ایک غریب ماں کا بیٹا رتن کمار جب حصول علم کی غرض سے اسکول میں داخلہ لیتا ہے، تو اسی کا ہم شکل ایک شرارتی لڑکا اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے اسے طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار کرتا ہے، لیکن اس غریب اور ٹانگ سے معذور لڑکے کی قوت برداشت، اس کا صبر اور حسن سلوک بالآخر تمام شرارتی لڑکوں کو ہار ماننے پر مجبور کردیتا ہے۔

’’بیداری‘‘ ایک مکمل بامقصد فلم تھی جس کے تمام گیت بھی مقصدیت اور حب وطن کی شاعری سے مزین تھے مثلاً ’’آئو بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘‘، ’’یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران، اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘، ’’ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے‘‘ گو کہ فلم میں اس وقت کے سپر اسٹار سنتوش کمار بھی ایک ٹیچر کے رول میں موجود تھے، لیکن فلم کی کہانی کا محور و مرکز چائلڈاسٹار رتن کمار تھے اور ان کی پرفارمنس بلاشبہ ان کے ادا کردہ دونوں ہی کرداروں جو منفی اور مثبت تھے میں خُوب صورت اور معیاری تھی۔

1962ء میں ہدایت کار وزیر علی نے ’’میرا کیا قصور‘‘ کے نام سے ایک دل چسپ گھریلو فلم بنائی، جو بنیادی طور پر تین کرداروں پر مبنی تھی۔ شمیم آرا، اسد بخاری اور ماسٹر مشتاق نے یہ مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ چائلڈ اسٹار ماسٹر مشتاق نے اسد بخاری کے سوتیلے بھائی اور شمیم آرا کے دیور کا رول پلے کیا تھا۔ یہ ایک معصوم اور مظلوم بچے کی کہانی تھی، جسے زینت بیگم اور اے شاہ مل کر ایک منحوس بچہ مشہور کردیتے ہیں۔تاہم بچے کی بھابھی شمیم آرا اس مظلوم بچے سے ہمیشہ محبت اور شفقت کا برتائو کرتی ہے، یہ مظلوم بچہ اپنی ذہانت اور بہادری سے ایک مسافر ٹرین کو خطرناک حادثے سے بچا کر نہ صرف اپنے اہل خانہ بلکہ پورے ملک کے عوام کی نظر میں ہیرو بن جاتا ہے۔ ’’میرا کیا قصور‘‘ کو باکس آفس پر شان دار پذیرائی حاصل ہوئی۔

 فلم کا ایک گیت جو ماسٹر مشتاق اور شمیم آرا پر پکچرائزڈ ’’پیاری بھابھی، بھابھی نہیں تو میری ماں ہے‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ 1966ء میں ہدایت کار راجہ حفیظ نے ’’ہمراہی‘‘ کے عنوان سے بہت ہی پراثر جاندار اور معیاری فلم بنائی، جو دو ٹین ایجز دوستوں کی دوستی کا احاطہ کرتی ہے۔ ان میں ایک دوست ’’حیدر‘‘ ٹانگ سے معذرو ہے، لیکن اسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے، دوسرا دوست ’’خالد‘‘ آنکھوں سے نابینا ہے ،لیکن قدرت نے اسے سریلاگلا عطا کیا ہے۔ خالد گیت گا کر پیسے اکٹھے کرتا ہے تاکہ حیدر اپنی تعلیم کا حصول ممکن بناسکے۔ 

فلم ’’ہمراہی‘‘ نے اپنے وقت کی بڑی بڑی فلموں کے مقابلے ریلیز ہوکر عظیم الشان گولڈن جوبلی منائی۔ 1966ء ہی کی ریلیز ہدایت کار رضا میر کی ’’بیٹی‘‘ بھی ایک کمسن بچی (گٹو) کی کہانی پر مبنی تھی۔ 1967ء کی ریلیز حسن طارق کی ’’یتیم‘‘ میں یتیم بچوں کی بے سروسامانی کو موضوع بنایا گیا۔ 1969ء میں ہدایت کار ایس اے حافظ کی میری بھابھی کا موضوع کسی حد تک میرا کیا قصور کی کہانی سے مشابہہ تھا، جس میں ماسٹر مراد اپنے بڑے بھائی درپن کی نفرت کا نشانہ بنتا ہے۔

1970ء کی ریلیز ایس سلیمان کی ’’ایک پھول ایک پتھر‘‘ ایک ڈاکو کی کہانی تھی ، لیکن جب اس کی زندگی میں پھول جیسا بچہ داخل ہوتا ہے تو یہ ڈاکو شرافت کی زندگی اپنالیتا ہے۔ 1973ء کی ریلیز وزیر علی کی ’’ہم لوگ‘‘ دو کمسن بہن بھائیوں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے،جو ماں باپ کی موت کے بعد ممانی کے رحم و کرم پر ہوتے۔ 1975ء میں وزیر علی نے میرا کیا قصور کو ’’معصوم‘‘ کے روپ میں پیش کیا، لیکن اس بار انہیں کام یابی نہ مل سکی۔ معصوم کا ٹائٹل رول ماسٹر عمران نے ادا کیا تھا۔ 

جب کہ شمیم آرا اور اسد بخاری والے کردار بابرہ شریف اور غلام محی الدین کے ذمے تھے۔ 1977ء کی ریلیز نذرالسلام کی شاہ کار تخلیق ’’آئینہ‘‘ گو کہ بنیادی طور پر دو پیار کرنے والوں کی کہانی تھی، لیکن فلم کے سیکنڈ ہاف میں ان دو پیار کرنے والوں کے پیار کی نشانی چائلڈ اسٹار ماسٹر شاہزیب کہانی کااہم کردار بن کر سامنے آتا ہے۔ 1977ء ہی کی ایک ناقابل فراموش تصویر (سلاخیں) گوکہ بنیادی طور پر محمد علی اور بابرہ شریف کی فلم ہے، لیکن فلم کے ابتدائی حصے میں بابرہ شریف کے بچپن کا رول پلے کرنے والی بچی پومی یاکمپتی کے کردار اور پرفارمنس کو کبھی بھی بھلایا نہ جاسکے گا۔ یہ ایک نہایت کمسن بچی تھی، لیکن اس نے (عابدہ) کے بچپن میں اپنی معصوم اور فطری پرفارمنس کے جو حقیق رنگ بھرے وہ فلم ویورز کی یادوں میں کبھی پھیکے نہیں پڑ سکتے۔ 1978ء کی ریلیز نذرالسلام کی ’’زندگی‘‘ میں بھی چائلڈ رول بڑی اہمیت کاحامل تھا۔ 

1978ء کی خوب صورت ریلیز ’’انتخاب‘‘ جسے پرویز ملک نے ڈائریکٹ کیا تھا، اس میں ایک یادو نہیں بلکہ پانچ چھ عدد بچوں کو کہانی میں مرکزیت حاصل تھی۔ پرویز ملک ہی کی 1981ء میں پیش کی جانے والی بہت ہی معیاری اور متاثر کن تخلیق ’’قربانی‘‘ کی کہانی تین بنیادی کرداروں پر محیط تھی۔ یہ کردار ندیم، شبنم اور ماسٹر خرم نے ادا کیے تھے۔ بلاشبہ قربانی ہر دور میں ایک بہترین فلم کے طور پر تسلیم کی جائےگی۔ 1983ء میں ہدایت کار نذر شباب نے ایرج سہگل کے ناول ’’مین وومین اینڈ چائلڈ‘‘ پر خوب صورت ڈراما مووی ’’کبھی الوداع نہ کہنا‘‘ بنائی، جس کی کہانی کچھ یُوں تھی کہ جاوید شیخ سری لنکا میں ’’سبیتا‘‘ سے شادی کرلیتے ہیں، وہ ایک بچے کو جنم دےکر مر جاتی ہے۔ 

جاوید شیخ دوسری شادی شبنم سے کرلیتے ہیں۔ شبنم سے ان کے 2؍ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ سری لنکا میں ماں کے مرجانے کے بعد ننھا ماسٹر شہباز تنہا رہ جاتا ہے۔ احساس محرومی کا شکار بچے کے رول کو ماسٹر شہباز نے عین فطری انداز سے نبھایا۔ ’’کبھی الوداع نہ کہنا‘‘ 1983ء کی بہترین فلموں میں سے ایک تھی، جس نے باکس آفس پر بھی تیز بزنس کرتے ہوئے شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ ہدایت کار اقبال کشمیری نے سلمیٰ آغا، جاوید شیخ کے ساتھ اپنے کم سن فرزند فیصل اقبال کو بطور چائلڈ اسٹار فلم ’’بھابھی دیاں چوڑیاں‘‘ میں پیش کیا۔ فلم کی کہانی میرا کیا قصور اور میری بھابھی کا مرکب تھی،جس میں فیصل اقبال نے جاوید شیخ کے بھائی اور سلمیٰ آغا کے دیور کا رول خُوب صورتی سے ادا کیا یہ فلم باکس آفس پر کام یاب رہی۔ 2014ء میں ہدایت کارعافیہ نتھینل نے ’’دختر‘‘ کے ٹائٹل سے بہت ہی دل کش معیاری اور قابل دید فلم تخلیق کی جس میں دکھایا گیا کہ دو پٹھان قبائل کے سرکردہ لوگ اپنی برسوں کی دشمنی اور کشت و خون کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ طے کرتے ہیں کہ آصف خان اپنی دس سالہ بیٹی صالحہ عارف کو مخالف قبیلے کے 70؍ سالہ بوڑھے سے بیاہ دے گا۔ 

تاکہ قدیم دشمنی کا خاتمہ ہوسکے،لیکن صالحہ عارف کی ماں سمیعہ ممتاز اس بے جوڑ شادی کو قبول نہیں کرتی اور اس کھلے جبر کے خلاف بغاوت کرکے اپنی دس سالہ بیٹی کو لےکر شہر کی طرف بھاگ نکلتی ہے۔ اس عمل میں انہیں قدم قدم پر مشکلات اور پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا ہے، لیکن بہرحال وہ ایک فرسودہ رسم کو بالآخر شکست سے دوچار کردیتے ہیں۔ صالحہ عارف نے ’’دختر‘‘ کے ٹائٹل رول میں اپنی معصومیت سے بھرپور، بے ساختہ پرفارمنس کے یادگار نقوش چھوڑے۔ اس خوب صورت فلم کو جیو فلمز نے ریلیز کیا تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین