سال سے زائد ہو گیا نہ ریفرنس بنا نہ الزامات سامنے آئے، مسئلہ گمبھیر ہو گیا، ضروری ہے کہ فتویٰ لیا جائے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و سیاست بیچ اس مسئلے کے کہ حمزہ شہباز شریف قید میں کیوں ہے؟
مزاحمتی تایا جان سابق وزیراعظم نواز شریف جیلوں کے تالے پگھلا کر علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں، مزاحمتی بیانیے کی سب سے بڑی شارح مریم نواز ضمانت پر رہا ہو کر جاتی امرا میں خاموشی سے روزے رکھ رہی ہیں، دس سال وزیراعلیٰ رہنے والے حمزہ کے والد شہباز شریف بیرونِ ملک بھی ہو آئے، فی الحال آزاد ہیں۔
خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت ہو گئی، شاہد خاقان عباسی باہر آگئے اور تو اور رانا ثناء اللہ بھی زندان سے زندہ سلامت نکل آئے مگر حمزہ سال بھر سے مسلسل قید میں ہے۔ اربابِ بست و کشاد سے پوچھنا یہ تھا کہ حمزہ شہباز شریف کیا مزاحمتی سیاست کا سرخیل تھا؟ کیا وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھا؟ کیا اس نے کبھی احتجاجی سیاست اور جارحانہ انداز اپنایا؟ اگر نہیں تو پھر کیا وہ فرینڈلی فائر کی زد میں ہے؟
اپنے والد شہباز شریف کے دس سالہ دورِ وزارتِ اعلیٰ میں حمزہ پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، 8کلب روڈ پر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے گرائونڈ فلور پر اس کا شاندار آفس تھا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کا دس سالہ کچا چٹھا سامنے لایا جاتا بتایا جاتا کہ اس نے کس کس طرح لوٹا مگر ابھی تک کسی ٹھیکے، تبادلے، تقرری یا کمیشن میں اس کا نام تک نہیں آیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو وفاقی حکومت، نیب، ریاستی ادارے اور صوبائی اینٹی کرپشن سب حمزہ کی جیب میں ہیں یا سب اس سے ملے ہوئے ہیں۔ حمزہ نے آخر کیا کاریگری دکھائی ہے کہ دس سال سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود اس کا کسی سرکاری ڈیل میں حصہ نہیں پکڑا گیا۔
کسی فائل پر اس کے دستخط نہیں، کسی آرڈر پر اس کا ذکر نہیں، ضرور اس معاملے میں کوئی گڑبڑ ہے۔ اگر حمزہ کا کوئی جرم نہیں پکڑا گیا توابھی تک وہ جیل میں کیوں ہے؟
نوازی اور شہبازی سیاست کے الگ الگ اہداف اور الگ ہی فائدے اور نقصان ہیں، نوازی جیل میں جاتے ہیں تو مزاحمتی نعرے لگاتے ہیں، سینہ تان کر چیلنج کرتے ہیں، دوسری طرف شہبازی مفاہمتی سیاست کے قائل ہونے کی وجہ سے جیل جائیں یا انہیں مار پڑے وہ مزاحمتی نعرے نہیں لگا سکتے، یہی حمزہ شہباز کا المیہ ہے۔
سال سے اوپر ہو گیا وہ جیل میں بند ہے مگر اب بھی وہ مزاحمتی نہیں مفاہمتی ہی کہلاتا ہے۔ اپوزیشن کی سیاست میں مفاہمتی کبھی فائدے میں نہیں رہتا، حمزہ کو فائدہ کیسے ہونا تھا؟
حالت یہ ہے کہ کسی ٹاک شو یا پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز شریف کی جیل کا ذکر نہیں ہوتا حد تو یہ ہے کہ نون لیگی بھی یہ تکلف نہیں کرتے کہ حمزہ کے لیے آواز اٹھائیں، شروع شروع میں حمزہ کی پیشی پر عدالت میں گہما گہمی ہوتی تھی، متوالے نعرے لگاتے تھے، اکٹھے ہوتے تھے مگر جیل لمبی ہوتی گئی، تاریخ پر تاریخ پڑتی گئی اور ہجوم کم ہوتا گیا۔
حالیہ مہینوں میں یوٹیوبر بلال شفیق نے ایک دلچسپ سیاسی وڈیو اپ لوڈ کی جس میں نون لیگ کے چند ورکرز گھر بیٹھے حمزہ حمزہ کا الاپ کر رہے ہیں۔ گویا وہ ظاہری یا اصلی طور پر یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ حمزہ نون لیگی ورکرز کے دلوں میں موجود ہے۔
اس وڈیو کے وائرل ہونے کے باوجود حمزہ شہباز کی جیل کا سیاسی تاثر نہیں بن سکا۔ ہاں! اگر حمزہ مزاحمتی کے طور پرجیل میں ہوتا تو اس کا سیاسی قد نون لیگ کے کئی بونوں سے بہت اونچا ہو چکا ہوتا مگر مفاہمتی حمزہ جیل جا کر بھی مزاحمتی اور باغی کے طور پر قبول نہیں ہو سکا۔
سیاست بڑی بےرحم ہوتی ہے وہ ذاتی غم اور خوشی سے لاتعلق ہوتی ہے، حمزہ اب 45سال کا ہے، شادی کے بعد 20سال کے طویل انتظار کے بعد اس کے ہاں پہلی اولاد (بیٹی) پیدا ہوئی ہے مگر جیل میں ہونے کی وجہ سے وہ حسرت و یاس سے اسے یاد تو کرتا ہے مگر اسے اٹھا کر یا کھلا کر نہال نہیں ہو پاتا۔
پچھلے دنوں بیٹی نے اسے بابا کہہ کر پکارا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ یہ دن تو اس کے اپنی اکلوتی بچی کے ساتھ کھیلنے کے تھے مگر وہ جیل کے بستر پر لیٹ کر چھت کو گھورتے رہنے پر مجبور ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شریف خاندان بھی اس کی رہائی کے لئے بہت زیادہ متحرک، متفکر اور بے چین نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ حمزہ ایک بار پھر تاوان کے طور پر جیل میں بند ہے، بالکل اسی طرح جیسے پہلے بھی جدہ جاتے ہوئے اہل خاندان اسے پاکستان میں بطورِ ضمانت چھوڑ گئے تھے۔ خود جلا وطن ہوگئے تھے اور حمزہ پاکستان میں رہ کر قسطیں ادا کرتا رہا۔
حمزہ کی حالیہ قید آنے والے دنوں میں مزاحمت کی تاریخ کا حصہ نہیں بن سکے گی کیونکہ مورخ حمزہ اور اسکے والد شہباز شریف کے مفاہمانہ بیانیہ کی وجہ سے اس کی جیل کو بھی COLLATERAL DAMAGEیعنی اجتماعی نقصان قرار دیدے گا۔ یہ حمزہ اور شہباز کیلئے اچھا شگون نہ ہوگا، دکھ درد بھی اٹھائیں گے مگر تمغہ نہ ملے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ مفاہمانہ سیاست کے بیانیے میں موجود ابہام کو دور کریں، مسئلہ یہ ہے بغاوت میں احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی، آپ کھل کر مزاحمت کریں۔
گلا پھاڑ کر نعرے لگائیں، جیل جائیں، اس کے جواب میں تشدد ہو یا ظلم، سب کا سیاسی فائدہ ملتا ہے۔ لیکن اگر مفاہمانہ سیاست کریںصلے میں اقتدار تو کیا ملتا بلکہ الٹا آپ کے خلاف مقدمے بنیں، آپ جیلوں میں بند ہوں۔
تو ایسے میں یا تو آپ کے بیانیے میں خرابی ہے یا پھر آپ کے بیانیے کی گونج ان ایوانوں تک نہیں پہنچی جہاں پہنچنی چاہئے۔ کہیں نہ کہیں تو کوئی مسئلہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)