• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس: لوگ لاک ڈاؤن میں زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ رہے ہیں

دسمبر 2019کے اواخر میں دنیا کو ایک ایسی وبائی بیماری کے بارے میں پتہ چلا، جس کے بارے میں اس سے پہلے کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ ناول کورونا وائرس (کوویڈ19-)کے نام سے شناخت ہونے والی یہ بیماری دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار دیتے ہوئے، دنیا کے تمام ممالک کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت جاری کردی اور اچانک سامنے آنے والی اس بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف ملکوں نے اپنے اپنے اندازوں کے مطابق، اپنے شہریوں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کا آغاز کردیا۔

اس بیماری کا پھیلاؤ اس قدر تیز تھا کہ دنیا کے کئی ملکوں نے یہی بہتر سمجھا کہ فوری طور پر لاک ڈاؤن لگاکر، اس کے بعد ہی اس سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی مرتب کی جائے۔ لاک ڈاؤن نے دنیا کے ملکوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے صحت کے نظام کا جائزہ لے سکیں کہ اس میں اس وبائی مرض سے نمٹنے کی کس حد تک صلاحیت موجود ہے اور ان ملکوں کے صحت کے نظام میں ایسی کیا خامیاں اور کمزوریاں ہیں، جن پر فوری طور پر قابو پانا لازمی ہے۔

اسی دوران طبی ماہرین اور سائنسدانوں نے بھی اس وائرس کا جائزہ لیا کہ ممکنہ طور پر اس وائرس کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔ ہرچندکہ دنیا بھر میں چند ایک ادویات کو تجرباتی طور پر کوویڈ19- کے علاج کے لیے پرکھا جارہا ہے لیکن طبی ماہرین متفقہ طور رپر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں نئے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری سے دنیا اس وقت تک مکمل طور پر چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کے خلاف کوئی ویکسین ایجاد نہیں کرلی جاتی۔

لاک ڈاؤن کی حکمتِ عملی

کورونا وائرس کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی جس حکمتِ عملی کو اختیار کیا گیا ہے، بدقسمتی سے اس کا علاج دریافت نہ ہونے کے باعث یہ صورتِ حال طول پکڑ تی جارہی ہے۔ یقیناً، ریاستوں پر اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لاک ڈاؤن جتنی زیادہ طوالت پکڑیں گے، اس کے سماجی اور معاشی اثرات بھی بھیانک ہوں گے، جن کے لیے بھی حکومتوں کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔ لاک ڈاؤن کے تحت زیادہ عرصہ تک گھروں کے اندر محدود ہوکر رہنا بھی آسان نہیں، تاہم اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ آج کی مصروف زندگی میں جہاں خاندانوں کا اکٹھے بیٹھنا محال ہوتا ہے، اب انھیں اپنے خاندان والوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا ہے اور وہ اپنے فارغ وقت کا اپنے خاندان کے ساتھ مل کر بہت زبردست استعمال کررہے ہیں۔

دوسری جانب، معاشی تنگی کا شکار کئی خاندان ایسے بھی ہیں، جن کے لیے لاک ڈاؤن ایک عذاب اور امتحان سے کم نہیں، جو چاہتے ہیں کہ کورونا وائرس پر آج قابو پالیا جائے، دوسرا دن اس کے بعد ہی اُبھرے۔

کوویڈ19-بیماری کیا ہے؟

کووِڈ- 19 کا تعلق کورونا وائرس کے اسی خاندان سے ہے جو نظامِ تنفس کی شدید ترین بیماری کی مجموعی علامات (سارس) اور نزلہ زکا م کی عام اقسام پھیلانے کا باعث بنا تھا۔

عالمی ادارہ صحت

دسمبر میں عالمی سطح پر پہلی بار باضابطہ طور پر نیا کورونا وائرس کا کیس سامنے آنے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد عالمی ادارہ صحت (WHO)نے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اسے پین ڈیمک (Pandemic)قرار دیے جانے سے قبل ہی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں یہ بیماری پھیل چکی تھی۔

کووِڈ- 19 کو عالمی وبا قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ وائرس پہلے سے زیادہ مہلک اور جان لیوا ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس، اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے باقاعدہ اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ یہ بیماری عالمی سطح پر پھیل چکی ہے۔

کوویڈ19 ایک عالمی وبا

عالمی وبا کی اصطلاح کسی بھی ایسی متعدی بیماری کے لیے مختص ہے جس میں مختلف ممالک میں کثیر تعداد میں لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہو کر بیمار پڑ رہے ہوں۔ آخری مرتبہ 2009 میں سامنے آنے والے سوائن فلو کو عالمی وبا قرار دیا گیا تھا، جس سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ عالمی وبا عموماً ایسے وائرس کے پھیلنے سے ہوتی ہے جو نیا ہو، لوگوں کو آسانی سے متاثر کر سکتا ہو اور ایک سے دوسرے شخص میں مؤثر انداز میں منتقل ہو رہا ہو۔ نیا کورونا وائرس ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا نا تو کوئی علاج ہے اور نہ ہی ایسی ویکسین جو اس کی روک تھام کر سکے۔

ناول کورونا وائرس کیسے پھیلتا ہے؟

یہ وائرس متاثرہ شخص کی کھانسی یا چھینک سے خارج ہونے والے رطوبتوں کے چھوٹے قطروں اور ایسے چیزوں کی سطح کو چھونے سے پھیلتا ہے جو کورونا وائرس سے آلودہ ہوچکی ہوں۔ کورونا وائرس ان چیزوں کی سطح پر کئی گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اسے عام جراثیم کش محلول سے بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔

علامات

کورونا وائرس کی علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکل پیش آنا شامل ہیں۔ بیماری کی شدت کی صورت میں نمونیہ اور سانس لینے میں بہت زیادہ مشکل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بہت کم صورتوں میں جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

اس بیماری کی عام علامات زکام (فلو) یا عام نزلے سے ملتی جلتی ہیں جو کہ کووِڈ- 19 کی نسبت بہت عام بیماریاں ہیں۔ اس لئے بیماری کی درست تشخیص کے لئے عام طور پر معائنے (ٹیسٹ) کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ مریض واقعی کووِڈ- 19 میں مبتلا ہوچکا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ نزلے زکام اور کووِڈ- 19 کی حفاظتی تدابیر ایک جیسی ہیں۔ مثال کے طور پر بار بار ہاتھ دھونا اور سانس لینے کے نظام کی صحت کا خیال رکھنا (کھانسی کرتے اور چھینکتے وقت اپنا منہ کہنی موڑ کر یا پھر ٹشو یا رومال سے ڈھانپ لینا اور استعمال شدہ رومال یا ٹشو کو ایسے کوڑا دان میں ضائع کرنا جو ڈھکن سے بند ہوسکتا ہو)۔

کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

آپ اور آپ کے خاندان کو کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری سے بچاؤ کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر لازماً اختیار کرنی چاہئیں:

  • باقاعدگی کے ساتھ ہاتھ صابن کے ساتھ 20سیکنڈ تک دھوئیں
  • کھانسی یا چھینک کی صورت میں اپنے منہ کو رومال، ٹشو پیپر یا اپنی آستین کے ساتھ ڈھانپیں
  • اپنے ہاتھوں کو آنکھوں، ناک اور منہ پر لگانے سے اجتناب کریں
  • نزلہ یا زکام سے متاثرہ افراد سے دور رہیں
  • پرہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں
  • بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کی صورت میں ڈاکٹر سے فوری طور پر رجوع کریں۔

فرنٹ لائن سپاہیوں کو سلام

کورونا کے خلاف لڑنا آسان نہیں۔ یہ جنگ اس لیے بھی زیادہ مشکل ہے کہ ابھی تک اس وائرس کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ ایسے میں ہمارے ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس اور دیگر طبی عملہ اپنی جان کی بازی لگا کر کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔

اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا کردار بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ کئی غیرسرکاری تنظیمیں بھی متاثرین کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھرپور کام کررہی ہیں۔ اسی طرح میڈیا ورکرز بھی مشکل حالات میں، ملک کے کونے کونے سے عوام کو کوروناوائرس سے متعلق تازہ ترین صورتِ حال سے باخبر رکھنے کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کوویڈ19-کی وبا کے درمیان، اپنے صفِ اول کے ان بہادر سپاہیوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔

احساس پروگرام

وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران ملک کے ایک کروڑ 20لاکھ غریب خاندانوں کو احساس پروگرام کے تحت 2,000روپے دینے کا پہلے ہی آغاز کردیا ہے۔ اعدادوشمار تک پیر گیارہ مئی تک احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے ذریعے 75 لاکھ سے زائد خاندانوں کو کیٹیگری ایک، دو اور تین کے تحت 91ارب 61کروڑ روپے کی امدادی رقوم دی جاچکی ہیں۔ رقوم کی ترسیل کے عمل کو آسان بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو حبیب بینک کا اشتراک حاصل ہے۔

ہاتھ دھونے کے مؤثر مرحلے

پہلا مرحلہ: بہتے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ گیلے کریں۔

دوسرا مرحلہ: ہاتھوں پر اتنا صابن لگائیں کہ آپ کے گیلے ہاتھ پوری طرح صابن کی جھاگ میں چھپ جائیں۔

تیسرا مرحلہ: ہاتھوں کی دونوں جانب سطح، انگلیوں کے درمیان اور ناخنوں کے اندرونی حصوں کو اچھی طرح رگڑیں۔

چوتھا مرحلہ: بہتے ہوئے پانی سے اپنے ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔

پانچواں مرحلہ: اپنے گیلے ہاتھ کسی صاف کپڑے یا ایسے تولیے سے صاف کرلیں جو صرف آپ کے استعمال میں ہو۔

دن میں کئی بار ہاتھ دھوئیں، خاص طور پر کھانے سے پہلے، ناک صاف کرنے کے بعد، کھانسی اور چھینک کے بعد اور بیت الخلا میں جاتے ہوئے۔

اگر صابن اور پانی فوری طور پر دستیاب نہ ہوں تو ہاتھ صاف رکھنے والا ایسا محلول استعمال کریں جس میں 60 فی صد الکوحل شامل ہو۔ اگر ہاتھ دھول مٹی سے اٹے ہوں یا واضح طور پر میلے دکھائی دیں تو ہمیشہ صاف پانی اور صابن سے اچھی طرح دھوئیں۔

طبی ماسک کی ضرورت

دنیا کے وہ ممالک جو بتدریج لاک ڈاؤن کی صورتِ حال سے نکل رہے ہیں، وہاں شہریوں کو باہر نکلتے وقت انھیں نہ صرف طبی ماسک پہننے کا مشورہ دیا جارہا ہے بلکہ انھیں اس کا پابند بھی کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے کورونا وائرس سے متعلق مزید تحقیق سامنے آرہی ہے، کچھ نئے حقائق بھی ظاہر ہورہے ہیں، جس کی بنا پر اب یہ ضروری تصور کیا جارہا ہے کہ باہر نکلتے وقت طبی ماسک پہنے رکھنا ہی صحت کی بہتر حفاظت ہے۔

اگر آپ ماسک پہن رہے ہیں تو لازم ہے کہ آپ انہیں ضائع کرتے وقت حفاظتی تدابیر مدِ نظر رکھیں تاکہ ماسک مؤثر رہیں اور وائرس کی منتقلی کے اضافی خطرات سے بچا جاسکے۔

تاہم، بیماری سے بچنے کے لئے صرف ماسک کا استعمال ہرگز کافی نہیں۔ اس کے لئے بار بار ہاتھ دھونا، چھینک اور کھانسی کے دوران منہ اور ناک کو ڈھانپنا اور ایسے لوگوں سے دُور رہنا بھی ضروری ہے جن میں نزلہ زکام کی علامات مثال کے طور پر کھانسی، چھینکیں اور بخار کی صورت میں ظاہر ہوچکی ہوں۔

کوویڈ19-سے کسے زیادہ خطرہ ہے؟

اگر آپ کو پہلے سے صحت کے مسائل کا سامنا ہے توآپ کو اس سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

جن لوگوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے اور وہ لوگ جنھیں پہلے سے صحت کے مسائل ہیں جیسا کہ ذیابطیس، دمہ یا دل کی بیماری ہے انھیں کورونا وائرس کے اثرات اور علامات زیادہ محسوس ہوں گی۔

اسی طرح، جو لوگ ذیابطیس ٹائپ ون یا ٹو کا شکار ہیں انھیں اس کے اثرات زیادہ محسوس ہوں گے۔ ذیابطیس یو کے کے ڈاکٹر ڈین ہاورڈ کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو ذیابطیس ہے انھیں کورونا وائرس سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ ’’اگر آپ کو ذیابطیس ہے اور آپ کو کھانسی، تیز بخار یا سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے تو آپ فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنی بلڈ شوگر چیک کرتے رہیں‘‘۔

جن لوگوں کو ہائی بلڈ پریشر، پھیپڑوں کی تکلیف یا جن کی قوتِ مدافعت کمزور ہے انھیں کورونا وائرس سے صحت کے دوسرے مسائل یا بیماری لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔

مزید برآں، وائرس کے شعبے میں کام کرنے والے کئی ماہرین اب یہ بات بھی کررہے ہیں کہ نئے کورونا وائرس سے ہر شخص کو ہی خطرہ ہے۔ کسی بھی ملک میں لاک ڈاؤن اس کے پھیلنے کے خطرات کو ایک حد تک ہی محدود رکھ پائے گا اور جیسے ہی لاک ڈاؤن کھولنے کا آغاز کیا جائے گا، اس وائرس کے دوبارہ سے پھیلنے کے خطرات پھر سے بڑھ جائیں گے، اس لیے دنیا کو اس وقت تک کورونا وائرس کے خطرات کا سامنا رہے گا، جب تک کہ اس کے خلاف کوئی ویکسین ایجاد کرلی جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق، ویکسین کے مارکیٹ میں آنے سے ایک سے دو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

تازہ ترین