• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید آئی، گزر گئی، جہاز گرا اور غم ہمارے اندر بیٹھ گیا،لاک ڈائون رہا۔ رہا بھی نہیں۔ اسپتالوں میں کبھی مسیحا اور کبھی مریض مرتے رہے۔ شاپنگ کرنے والے کرتے رہے۔ پتنگ اڑانے والوں کی تار والی ڈور لوگوں کی گردنیں کاٹتی رہی۔

بڑے مسائل اور عالمی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے، کورونا، کورونا میڈیا سے اخباروں تک لفظی جنگ لڑتے رہے۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کیا مذہبی کیا سیاسی لوگوں کے ہاتھ جوڑ کر گھر میں رہنے کی تاکید، اس لئے ضائع ہوگئی کہ لوگوں کو ان کی باتوں پر اعتبار نہ تھا اور نہ ہے۔ دنیا کو ان دو ماہ میں 9ٹریلین کا نقصان ہوا ہے۔ اب ایک اور نعرہ ساری دنیا میں گونج رہا ہے۔ دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ دنیا تبدیل ہورہی ہے۔ دیکھو نا سعودی عرب میں عید پر بھی مسلسل کرفیو رہا ہے۔ کورونا کابہانہ بناکر امریکہ، چین اور ایران پر مسلسل طعنہ زنی کررہا ہے۔ جنوری سے اب تک موسمیاتی تبدیلیوں نے اپنا نقشہ اورروزانہ کی بے موسم بارشیں عطا کی ہیں۔ کورونا، کورونا کرتے کرتے یہ بھی بھول گئے کہ ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی غائب ہورہی ہے۔ دنیا کے رہنما کچھ کہیں مگر انڈیا نے تعصب کا زہر اتنا گھولا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی مرثیہ خواں ہیں۔ ہم تو دو سال سے کرپشن کھود رہے ہیں۔ ہیروں کی جگہ کوئلہ نکل رہا ہے۔ اس کوئلے کی دلالی میں کس کس کا منہ کالا ہوا یا چھپا رہا۔ سب کی زبان گنگ ہے۔

1918ء کے ہسپانوی فلو میں تو 5کروڑ لوگ مرے تھے۔ اس کےبعد یورپ کا نقشہ بدل گیا تھا۔ یورپ میں مذہبی انتہا پسندی ختم ہوگئی۔ عالمی سطح پر جتنے فرینکو تھے۔ وہ دفن ہوئے۔ گزشتہ سالوںمیں 20ممالک میں تین لاکھ مربع میل کا علاقہ صحرا میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اب اس کو دوبارہ زرخیز بنایا جارہا ہے۔ پہلے سود بڑھتا بڑھتا اتنا اونچا ہوا کہ ساری دنیا میں ہاہا کار مچ گئی۔ اب واپس کرتے کرتے گھٹتے گھٹتے نجانے کہاں پہنچے گا۔ بینکوں کو چھوٹے کاروبار والوں کو اتنے کم پیسے دینے کی ہدایت ہے کہ وہ ایک کھوکھا لگا سکتے ہیں۔ وہ روزی کیسے کمائیں گے۔ پورے 12بندوں کے خاندان کو کیا کھلائیں گے۔ مجھ سے مت پوچھو۔ یہ نظم پڑھ لو۔

ہم بے وقعت، بے وقعت ہی رہے

موت سے ڈرانے والوں کو

اب کوئی اور عذر تلاش کرنا پڑ گیا

کہ اب تو دنیا بھر میں لاشیں

گلیوں، بازاروں، خندقوں میں

بے نام، بکھری پڑی ہیں

موت تو اب ایک المیہ نہیں رہا

زندگی کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہی

اب صرف ایک حقیقت ہے

وہ ہے موت

کورونا سے مرنے والوں کے قریب

اولاد اور گورکن بھی آنے سے گریزاں

نظر آتے ہیں

رشتے، قرابت، اپنا خون

یہ سب واہمے، کورونا کفن بن گئے ہیں

کورونا، وبا ہے، بلا ہے کہ انتباہ

اب تو قل، چہلم کی رسمیں بھی

لاک ڈائون کی نذر ہوگئی ہیں

پندرہ دن کا قرنطینہ

موت سے مکالمے میں گزرتا ہے

دوستوں کا دروازے پر دستک دینا

وفور کے عالم میں گلے ملنا

پرانا قصہ لگتا ہے

ایک ہی صف میں محمود و ایاز

کعبۃ اللہ میں ہر وقت طواف

یروشلم کی مسجد میں نماز

سراب ہوگئے ہیں

اس ماتمی فضا سے ماورا

بہار نے اپنے سارے ٹیولپ اور شگوفے

بچا لئے ہیں

بہار کی خوشبو چاروں طرف ہے

دیکھنے والے انسان نہیں

بندر اور چیتے ہیں

اپنے رب سے ہمکلام ہونے والوں کی دعائوں کو

میرا رب جانتا ہے، منافقانہ ہیں

تم مسلمان ہو! کابل میں میٹرنٹی ہوم میں

بم مارتے ہو

اور تم کورونا!

مائوں کے پیٹ میں بچوںکو بھی نہیں چھوڑتے

اور ہم پاکستان!

ہم آدھا ملک گنوا کر، زلزلوں اور

سیلابوں میں جانوروں کی طرح مرتے ہوئے

ہم وہی رہیں گے، وحشی، بے ایمان

پھر بھی گائیں گے ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘

سن کورونا!

تو انسان کے پیچھے کیوں پڑی ہے

آگے بڑھ، ساری دنیا کے ہتھیاروں کو

فنا کردے

خدا تو رحیم و کریم ہے

اسنے تو تجھے نہیں بھیجا

شیطان بھی رمضان میں قید ہوتا ہے

تو پھر بتا تجھے کس نے بھیجا ہے

تو میرے مسیحائوں کو بھی لے گئی

اب جو کچھ بچا ہے

بے وقعت زندگی

بے وقعت لوگ!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین