• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے مگر اس حقیقت پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ اگر کبھی شہر خموشاں سے گزر ہو اور مکینوں کے کتبے پڑھنے کا موقع ملے تو موت کی حقیقت کے نت نئے پہلو سمجھ میں آتے ہیں۔ جب یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی سمیت دنیا کی ہر شے عارضی ہے تو اس احساس سے بہت سے نشے ہرن ہو جاتے ہیں، بہت سے خواب لڑکھرانے لگتے ہیں اور غور و فکر کے انداز بدلنے لگتے ہیں۔ خالق کائنات نے زندگی کو کچھ اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ یہ احساس یا ادراک بھی لمحاتی ہوتا ہے اور پھر انسان حسب معمول دنیا کے کاموں میں اس طرح مشغول ہو جاتا ہے جیسے اسے قیامت تک زندہ رہنا ہے جیسے موت دوسروں کیلئے ہے اس کیلئے نہیں۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیقؓ فرمایا کرتے تھے کہ موت مانگو نہیں لیکن موت کو یاد کرتے رہو۔ انسان اسے یاد کرتا رہے تو شاید نہ تکبر، غرور اور ہوس کا شکار ہو اور نہ ہی قتل و غارت کا مرتکب، نہ زبان کی تلوار سے دوسروں کو مجروح کرے اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کرے۔ شاید موت کو یاد کرنے کا اس لئے کہا گیا کہ اس سے ہمارے نشے ہرن ہو جاتے ہیں چاہے وہ نشہ اقتدار کا ہو، دولت یا شہرت کا ہو، جوانی کا ہو یا حسن کا۔

زندگی کی کتاب میرے سامنے کھلی تھی اور میں یادوں کے البم میں تصویریں دیکھتے دیکھتے اپنے آپ میں گم تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی جسے شاید میں بیان کرنے پہ قدرت نہیں رکھتا۔ ان تصویروں میں بہت سے چہرے شناسا تھے کیونکہ کسی سے گہری دوستی رہی تھی، کوئی سروس میں’’کولیگ‘‘ تھا، کسی سے اچھی شناسائی تھی، کسی سے سرراہ یا کسی محفل میں ملاقات ہوئی تھی، کوئی زندگی میں شہرت و مقبولیت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگمگاتا رہا تھا، کسی کی شاعری، کسی کی نثر، کسی کے علم، کسی کی دانشوری، کسی کی سریلی آواز، کسی کے حسن اور کسی کی عالمانہ تقاریر اور کتابوں کے چرچے چہار سُو تھے۔ کوئی بڑا صنعتکار، کوئی بڑا کھلاڑی، کوئی سیاستدان اور کوئی اپنے زمانے کا بڑا مقرر تھا لیکن آج سب کے سب منوں مٹی تلے سو رہے ہیں۔ انہیں عزیز و اقارب کندھوں پر اٹھا کر قبر میں اتار آئے تھے جہاں دولت، شہرت، علم، طاقت، اقتدار، حسن حتیٰ کہ کچھ بھی کام نہیں آتا بجز نیکی کے۔ ان کے نام بھی اس لئے مانوس ہیں کہ یہ ہمارے ہمعصر تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد زمانہ ان کے ناموں سے بھی ناآشنا ہو جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ چند ایک حضرات جو سروس میں مجھ سے سینئر تھے مگر ان سے آشنائی تھی ان کی موت کی خبر بھی اس کتاب سے ملی۔ یہ ہے زندگی... ایک وقت ہم اکٹھے ہوتے ہیں، ہر روز ملتے ہیں لیکن پھر زندگی یوں بکھیر دیتی ہے کہ کون کب پیوند خاک ہوا پتا ہی نہیں چلا۔ خزاں کے موسم میں ہرے بھرے پتے زرد اور خشک ہوکر ٹہنیوں سے گرتے رہتے ہیں اور کوڑے ’’شُورے‘‘ کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی زندگی کی ٹہنیوں سے پژمردہ ہو کر گرتا اور سانس سے ناتا توڑتا رہتا ہے مگر زندگی کی حرص و ہوس اور بھاگ دوڑ میں شریک لوگوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ کون کہاں گرا۔ زندگی کی بے ثباتی کی کیفیت طاری ہو تو ان فرعونوں پہ رحم آتا ہے جو اقتدار کے تخت پر بیٹھ کر یا قارون کے خرانے کو اپنے بینک اکائونٹ میں سجا کر یا اپنی شہرت اور دانشوری کے زور پر دوسروں کو لتاڑتے یا مجروح کرتے ہیں یا اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ حرفِ آخر ہوں اور دنیا بھر کی دانش ان کی مرہونِ منت ہو۔ مجھے تو ان بیچاروں پر بھی ترس آتا ہے جو سرشام ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے آقائوں کے قصیدے پڑھتے اور ان کی غلط کاریوں کا دفاع کرنے کیلئے اپنی صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ اس خدمت کے عوض زیادہ سے زیادہ کوئی سیاسی عہدہ، مالی منفعت یا شاباش مل جائے گی لیکن اس کذب بیانی سے اعمال نامہ جس طرح سیاہ ہوتا ہے اس کا انہیں احساس ہی نہیں۔

زندگی کی ایک بڑی حقیقت عشق ہے اور سچا عشق‘ عشق الٰہی اور عشق رسولؐ ہوتا ہے جو انسان کو زندگی اور موت دونوں میں امر بنا جاتا ہے۔ ایک عاشق رسولؐ محمد سعید بدر کا نعتیہ کلام ’’عرض تمنا‘‘ کی شکل میں ملا تو میں پیش لفظ میں ہی ڈوب کر رہ گیا۔ نعت عشق ہے اور میں اس پہ تبصرہ کرنے کا ہرگز اہل نہیں، سچ یہ ہے کہ پیش لفظ میں لکھے اس واقعے نے مجھے اپنے اندر جذب کر لیا اور میں آگے بڑھ نہ سکا۔ مصنف کی زبانی سنیے: مدینہ منورہ میں ’’حاضری کیلئے مزار پُرانوار پر پہنچا تو بے پناہ رش تھا، روضہ اقدس کی تنگ گلی پر سنگدل شُرطے براجمان تھے جو روضہ اقدس کی طرف بالکل جانے ہی نہ دیتے۔ راقم معذوری کی وجہ سے وہیل چیئر پر بیٹھا تھا، مزار اقدس قریب آیا تو راقم بے اختیار عالم تصور میں کھو گیا ’’یا رسول اللہﷺ علیک الصلوٰۃ والسلام۔ مجبور اور بے بس ہوں کیا کروں۔ اپنی بے بسی پہ بہت رونا آیا۔ اس تصور میں محو تھا کہ اچانک ایک باریش ادھیڑ عمر شخص نمودار ہوا اور اس نے مجھے وہیل چیئر سے اترنے کا کہا، چیئر سے نیچے اترا اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، پلیز یہاں کھڑے ہو جائیں آپ کو جگہ چاہئے تھی وہ میں نے لے دی۔ اب کھڑے ہو کر جو چاہو کرو، درود شریف پڑھو یا سلام پیش کرو۔ یوں محسوس ہوا جیسے دنیا و جہاں کے خزانے مل گئے ہوں۔ گھنٹہ بھر دیوار کے ساتھ باادب کھڑا درود شریف پڑھتا رہا۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے باہر آیا تو دوچار حضرات بھاگ کر میرے پاس آئے، پوچھ رہے تھے کہ وہ آدمی کون تھا؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں اسے نہیں جانتا جانے وہ کون تھا۔ بعد میں اسے بہت ڈھونڈا لیکن کہیں نظر نہیں آیا۔

موت برحق ہے اور ہر ذی روح کا مقدر ہے اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا، سوائے سچے عشق کے۔ سچا عاشق آنکھوں سے اوجھل بھی ہو جائے تو دلوں میں عقیدت کی روشنی کے ساتھ زندہ رہتا ہے اور تاقیامت زندہ رہے گا۔ گویا وہ موت قبول کرکے موت کو شکست دے دیتا ہے۔ یہی سچے عشق کی پہچان ہے اسی لئے سچے عاشقوں کے مزار دن رات زندہ رہتے ہیں اور مسلسل یہ پیغام دیتے رہتے ہیں کہ عشق حقیقی ابدی حقیقت ہے اسے موت نہیں مار سکتی۔

تازہ ترین