• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید آئی اور ہم نے تمام احتیاطی تدابیر کے بخیے ادھیڑ دیے۔ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) کی دھجیاں فضا میں بکھیر دیں۔ عید کی نماز ہر شہر میں پڑھی گئی۔ 

کہیں بھی نمازیوں نے ایک دوسرے کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ بھی برقرار نہ رکھا۔ لوگ ایک دوسرے سے بغیر کسی خوف کے گلے ملتے رہے۔ عید پر ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ 

چند لوگ جو ملنے جلنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے انہیں بے وقوف اور ڈرپوک کا خطاب دیا گیا۔ میں نے دو نوجوانوں کو دیکھا، ایک نے دوسرے سے کہا ’’آ گلے لگ کہ کورونا کو ماریں‘‘ یعنی لوگ گلے لگ کر کورونا کا مذاق اڑاتے رہے۔ 

یہ سارا کچھ زیادہ تر ان علاقوں میں ہوا جہاں کورونا کے مریض بہت کم ہیں مگر جہاں یہ وبا بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے وہاں کسی نے اس کی پروا نہیں کی۔ بازار بھرے رہے، خریداریاں ہوتی رہیں۔ دوسری طرف کورونا کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی مگر لوگوں کے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اموات کی شرح پاکستان میں دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بیشک کورونا پاکستان میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔

 خیال کیا جاتا ہے کہ پندرہ جون سے پہلے پہلے کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ جائے گی۔ یہ بات بھی درست کہ صرف لاک ڈائون ہی اس کا علاج نہیں۔ بہرحال دنیا بھر میں کورونا کے مکمل خاتمہ کے امکانات روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے ہمیں دوسری بیماریوں کی طرح اس کے ساتھ بھی جینے کا سلیقہ سیکھنا پڑے گا۔ 

جو بہت تکلیف دہ ہے۔ اس نے زندگی کے خوبصورت لان میں ببول اگا دیے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے جو صرف جسم کو نہیں کاروبار کو بھی لگ گئی ہے۔ ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریل گاڑی اور بس سروسز سے متعلقہ تمام کاروباری حضرات اپنے خسارے کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ اس سے تو بہتر ہمیں ہی کورونا ہو گیا ہوتا۔ 

ان تمام بزنسز کے شیئرز آسمان سے زمین پر آ گرے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاحت اور ہوٹلنگ سے متعلقہ کاروبار بھی تقریباً ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ریستوران کا بزنس تو تقریباً مردہ ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ اسٹورز کے مالکان سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ 

خریداروں کا مزاج بدل چکا ہے۔ ہر طرف آن لائن شاپنگ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ سوچا جا رہا ہے کہ زیادہ لوگوں کو گھر سے کام کرنے پر ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ ڈیجیٹل زندگی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ یقیناً نئی پیداواری صلاحیت وجود میں آئے گی۔ کرنسیاں ڈیجیٹل ہو جائیں گی۔ 

ملازمین گھر سے کام کریں گے، دفاتر کی شکل و صورت بدل جائے گی۔ چین نے تو ڈیجیٹل کرنسی پر 2014ء میں کام شروع کر دیا تھا۔ 2022ء تک ڈیجیٹل یوآن رائج کر دیا جائے گا۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کورونا کرنسی کے نوٹوں کے سبب پھیلا ہے۔

کیا زمانہ تھا لوگ صبح اٹھتے تھے، بچوں کو اسکول بھیجتے تھے اور خود کام پر روانہ ہو جاتے تھے۔ ایئر پورٹس پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، ریلوے اسٹیشن مسافروں سے بھرے ہوتے تھے، بسوں میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ویگنوں میں لوگوں کو ٹھونس دیا جاتا تھا۔ 

ریستوران بھرے ہوتے تھے۔ ہوٹلز میں ٹھہرنے کیلئے کمرہ نہیں ملتا تھا۔ اگرچہ ہم نے پاکستان میں لاک ڈائون تقریباً ختم کر دیا ہے مگر مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہمیں بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ کورونا کے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔

ابھی کل کیا ہوگا۔ دنیا کیسی دکھائی دیگی۔ ابھی ہم تاریکی میں ہیں سو کوئی واضح پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ویسے بھی بیمار اور مردہ ادوار مستقبل کے خواب نہیں دیکھا کرتے لیکن یہ طے ہے کہ جو مستقبل ہوگا وہ ماضی جیسا نہیں ہوگا۔ مجھے تو کورونا کے قلیل مدتی ہنگامی اقدامات زندگی کا حصہ بنتے نظر آرہے ہیں۔

نئی دنیا میں ایک بڑا مسئلہ روزگار کا ہوگا، اس وقت بھی یورپ اور امریکہ میں بے روزگاری خطرے کے نشان سے بڑ ھ چکی ہے۔ وہاں لوگ زراعت کی طرف زیادہ متوجہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی بیروزگاروں کا ایک اجتماعِ عظیم آباد ہے۔ جن کیلئے عمران خان ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ 

بی بی سی کے مطابق مجموعی طور پر 81فیصد کام کی جگہیں مکمل یا جزوی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ بہت سی کمپنیاں بند ہو گئیں کہیں مستقلاً اور کہیں عارضی طور پر عملہ فارغ کر دیا گیا۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ہی معیشتوں میں مزدور اور کاروباری تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ بیشک ہمیں تیز اور فیصلہ کن انداز میں ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوگا وگرنہ بربادیوں کے تذکرے آسمانوں پر ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں دو سو ملین افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ 

سب سے زیادہ ملازمتوں کے خاتمے کا خدشہ عرب ممالک میں ہے۔ اب تک گھریلو کام کرنے والے لوگ سب سے زیادہ بیروزگار ہوئے ہیں۔ مینو فیکچرنگ، ہول سیل، ریٹیل، اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 

تقریباً وہ تمام برنسز جس میں آزادانہ میل جول ضروری ہے وہ تباہ ہوئے ہیں۔ سیاحت سے متعلقہ تمام بزنسز تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں گلگت بلتستان کی معیشت کا ستر فیصد انحصار سیاحت پر تھا۔ دنیا بھر میں سیاحت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ میرے خیال میں تو نئی دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر ڈیجیٹل علوم سکھانا چاہئیں۔ زراعت کے شعبے پر اپنی تمام توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ یہی دو راستے ہیں جو ہمارے مستقبل کو محفوظ کر سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین