• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مئی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات جو ہماری قومی زندگی میں بعض وجوہ سے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں ، اُن کے بنیادی عناصر میں حُسنِ ترتیب بے حد ضروری ہے۔ اِن بنیادی عناصر میں اُمیدواروں کو چھلنی سے گزارنا ، سیاسی جماعتوں سے ضابطہٴ اخلاق کی پابندی کرانا ، پُرامن ماحول فراہم کرنا اور پولنگ اسٹیشنوں کو عوام کے مینڈیٹ پر شبخون مارنے والوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ ماضی کے تجربات سے یہ حقیقت آشکار ہے کہ پیسہ ، ذات برادری ،قبائلی تعصبات اور ووٹروں کی عدم دلچسپی اِن عناصر کی کامیابی کے ذمے دار رہے جو اصولوں اور آدرشوں کے بجائے دولت  جھوٹی شہرت اور اقتدار و اختیار کے رسیا اور ذاتی یا گروہی مفادات کے اسیر ہیں  البتہ اِس بار ایک نیا منظر نامہ طلوع ہو رہا ہے کہ اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے  آئین کے مطابق نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں  اُمیدواروں کی جانچ پڑتال کے لیے فلٹر لگا دیے گئے ہیں اور ایک صاف ستھری اور باصلاحیت قیادت کی تڑپ عوام کے اندر شدت اختیار کر گئی ہے جس کی موجِ صبا سے اُمیدوں کے شگوفے چٹک اُٹھے ہیں۔خوش قسمتی سے ہماری قوم انتخابات کا پُل صراط عبور کرنے میں پُرعزم دکھائی دیتی ہے  مگر اِس راہ میں خاصی مشکلات حائل ہیں۔ جماعت اسلامی کے سوا ہماری سیاسی جماعتوں نے عوام کی سیاسی اور اخلاقی تربیت اور اُنہیں نظم و ضبط کا پابند بنانے میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی۔ آج اُن کی طرف سے جو منشور پیش کیے جا رہے ہیں اُن میں ٹھوس پروگرام کے بجائے خواہشات کی ایک اُکتا دینے والی فہرست زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔ حُسنِ اتفاق سے مجھے اُس تقریب میں شمولیت کا موقع ملا جس میں مسلم لیگ نون کے صدر جناب نواز شریف نے اپنی جماعت کا منشور پیش کیا۔
میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب تقریب ٹھیک وقت پر پانچ بجے شروع ہوئی اور میاں صاحب نے منشور کے اہم اہداف کی تشریح اِس انداز سے کی کہ اُن کا حصول ممکن دکھائی دینے لگا۔ میں نے اُس لمحے سوچا تھا کہ اگر ہماری سیاسی جماعتیں خود بھی وقت کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھیں اور عوام کو بھی پابندیٴ وقت کا عادی بنا سکیں اور قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا سکیں  تو یہی عظیم تبدیلی کا ایک حیات آفریں پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ قوم کے اندر اِن بنیادی صفات کی پرورش کے بغیر کوئی بھی منشور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا۔ اِس کے لیے سیاسی قیادت کو عملی نمونہ پیش کرنا اور وی آئی پی کلچر کو خیر باد کہتے ہوئے عوام کی سطح پر آنا ہو گا۔ مغربی ممالک میں وزیر اور مشیر عام شہری کی طرح قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
ہمارے مستقبل پر اثر انداز ہونے والے انتخابات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ اُن میں خارجی اثرات غالب نہ آنے پائیں اور ہماری سیاسی قیادت قومی مفاد کے مطابق فیصلے کرنے میں پوری طرح آزاد ہو  مگر ہم گزشتہ ایک دو ماہ سے بیرونی سفارت کاروں کی آنیاں جانیاں دیکھ رہے ہیں جن سے اِس رائے کو تقویت ملی ہے کہ اُنہوں نے نگران حکومتوں کی تشکیل میں درپردہ کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری جن کو پچھلے دنوں پاکستان آنا تھا  اُن کا دورہ اِس لیے منسوخ کیا گیا کہ وہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہتے تھے  مگر اُن سے ملاقات کے لیے ہمارے آرمی چیف جنرل کیانی عمان گئے اور اُن کے مابین سٹرٹیجک معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خبر میں یہ اشارہ بھی تھا کہ عام انتخابات بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔ قدرتی طور پر امریکہ کی یہ خواہش ہو گی کہ افغانستان سے انخلا کے وقت پاکستان میں ایک ایسی حکومت نہیں ہونی چاہیے جو اِس عالمی اہمیت کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا رجحان رکھتی ہو۔ اِس حد تک بات سمجھ میں آتی ہے  مگر پاکستان میں امریکی سفیر اور لاہور میں اُن کی قونصل جنرل کا ضرورت سے زیادہ فعال ہو جانا اور سیاست دانوں سے علانیہ اور نیم خفیہ رابطے بڑھا دینا  یقینا ایک تشویش ناک امر ہے۔ اِسی طرح فروری کے آخر میں برطانوی ہائی کمیشن کے وفدکا سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ہمارے معروف صحافی جناب نجم سیٹھی اور بلند ہمت قانون دان محترمہ عاصمہ جہانگیر سے ملاقاتیں کرتے رہنا  ہمارے معاملات میں سفارتی مداخلت کے مترادف ہیں اور نگران حکومتوں کی غیر جانب داری میں سنگین سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔
پنجاب نگران حکومت میں سلیمہ ہاشمی صاحبہ کی شمولیت اِس لیے اضطراب کا باعث بنتی جا رہی ہے کہ وہ ڈھاکہ میں اِس تقریب میں شریک ہوئیں جس میں ”بنگلہ دیش دوستی“ کے نام پر تیرہ پاکستانیوں کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیے گئے۔ اُنہوں نے اپنے عظیم والد جناب فیض احمد فیض کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے بڑی بے رحمی سے کہا کہ ”حکومت پاکستان کو بنگلہ دیش کے عوام سے اُن مظالم پر باقاعدہ معافی مانگنی چاہیے جو 1971ء کی ”جنگِ آزادی“ میں قابض پاکستانی فوج نے بنگالیوں پر ڈھائے تھے“۔ محترمہ سلیمہ ہاشمی کے یہ الفاظ پاکستانیوں کے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے بھارت کی زبان استعمال کی ہے۔ اب تک بنگالی محققین اور مصنّفین کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کے مظالم سے بھری پڑی ہیں اور پاکستانی فوج پر نسل کشی اور خواتین کی آبروریزی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ بھارت نے آزاد اور خود مختار پاکستان کے خلاف بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے جارحیت کا ارتکاب کیا تھا جسے اب ”جنگِ آزادی“ کا نام دیا جا رہا ہے اور پاکستان کی حفاظت میں لڑنے والے اب دار پر لٹکائے جا رہے ہیں جس کے خلاف پوری عالمی برادری کو آواز اُٹھانا اور ظالم کا ہاتھ روکنا چاہیے۔
میں ابھی اِسی اضطرابی کیفیت سے دوچار ہی تھا کہ ڈاک سے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کا ادبی مجلہ نسٹین موصول ہوا۔ پہلی ہی نظرمیں نشاطِ روح کا سامان فراہم ہو گیا کہ اِس کے رنگ اور اِس کے مضامین دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتے چلے گئے جس میں ادب اور سائنس کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔اِس کے مطالعے سے میرے اندر آقائے نامدار کی بے پایاں رحمت اور پاکستان کی عظمت اور اُس کے درخشندہ مستقبل پر ایمان تازہ ہوتا گیا۔ یہ یونیورسٹی اسلام آباد میں واقع ہے جو فوج کے زیرِ انتظام چل رہی ہے اور سائنسی علوم کی تدریس و ترویج میں ایک بلند مقام حاصل کر چکی ہے۔ خوشی اور فخر کی بات ہے کہ ہماری مسلح فوج سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علوم و ادب کی پرورش اور ذہنوں کی تشکیل میں بھی قابلِ قدر کردار ادا کر رہی ہے۔ ادبی جریدے کے ایڈیٹر جناب ممتاز اقبال ملک ہیں جو صحافت میں ایک شاندار ماضی کے حامل ہیں۔ مجلس مشاورت میں انجینئر محمد شاہد  ڈاکٹر آصف رضا اور محمد بشیر باجوہ شامل ہیں۔ لکھنے والوں میں سید مشکور حسین یاد  سید حسنین کاظم  صہبا اختر  ارون دتی رائے  ڈاکٹر انیس احمد  الطاف فاطمہ  امجد اسلام امجد  پروفیسر فتح ملک اور سلیم منصور خالد بڑے نمایاں ہیں۔ ادبی مجلے میں حمد باری تعالیٰ بھی ہے  نظمیں  غزلیں اور خوبصورت افسانے بھی اور اذہان کو کشادہ کرنے والے مقالے بھی۔ گویا لطافتوں اور تخلیقی اُمنگوں کا ایک حسین مرقع ہے۔
اداریے کی آخری چند سطور: ”ان شاء الله تعالیٰ قدرتی وسائل  افرادی توانائی اور امکانات و مواقع سے لبالب پاکستان آباد رہے گا اور پاکستانی شاداب۔ علم و ہنر میں اضافے اور صلاحیت کو دوچند کرنے کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبتوں کے اجر میں الله تعالیٰ کے عطا کردہ وطن پاک میں آ کر اپنے ہنر اور تجربے سے پاک سرزمین کو شادباد کریں اور سوئے منزلِ مراد بڑھتے چلیں۔۔۔ بڑھتے چلیں “۔ مجھے ادبی مجلے نسٹین سے بہت حوصلہ ملا ہے اور نوید کامرانی میری روح کے اندر اُترتی جا رہی ہے کہ ظہورِ ترتیب کا حسن ضوفشاں ہے۔
تازہ ترین