• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی موجودہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کا نام ہی واضح کرتا ہے کہ اس کے قیام کا بنیادی مقصد معاشرے میں عدل و انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔تقریباً ربع صدی پہلے اس جماعت کی تاسیس ہی اس عزم کے ساتھ عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ معاشرے سے ہر قسم کے ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کی خاطر جدوجہد کرے گی لہٰذا اب جبکہ وہ نہ صرف برسر اقتدار ہے بلکہ اپنی حکمرانی کی آئینی مدت کا تقریباً ایک تہائی حصہ مکمل بھی کرچکی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے اس اصل نصب العین کی جانب پیش قدمی نہ کرے۔اس تناظر میں گزشتہ روز قانونی اصلاحات سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم کی جانب سے اس امر کا اعادہ یقیناً خوش آئند ہے کہ موجودہ نظام انصاف میں پائے جانے والے سقم دور کرنا اور آسان، سستے اور فوری انصاف تک ہر شہری کی رسائی ممکن بنانا تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی جزو ہے۔ بلاشبہ کروڑوں پاکستانیوں نے معاشرے سے ظلم و نا انصافی کے خاتمے کی ان یقین دہانیوں ہی پر تحریک انصاف کو ووٹ دیے تھے اور اس بنا اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم کا یہ کہنا ان اہل وطن کے احساسات کی بالکل درست صورت گری ہے کہ انصاف کے نظام میں بہتری کے لیے عوام کی توقعات موجودہ حکومت سے وابستہ ہیں۔ قانونی اصلاحات کے اس جائزہ اجلاس میں طے پایا کہ وزیرِ قانون، مشیر برائے پارلیمانی امور اور اٹارنی جنرل پر مشتمل کمیٹی عوام کی توقعات کے مطابق قانونی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے روڈ میپ مرتب کرے جس کی روشنی میں آئندہ ہفتے مزید فیصلے کیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ فوجداری مقدمات کے نظام میں اصلاحات، تھانہ کلچر میں تبدیلی، مقدمات کے اندراج، تفتیش، جیل خانہ جات میں اصلاحاتی عمل کے حوالے سے بھی روڈ میپ تشکیل دیا جائے تاکہ ان اصلاحات پر جلد از جلد عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔مروجہ نظام انصاف کی جن خامیوں کی نشاندہی اجلاس میں کی گئی وہ بہرحال کسی انکشاف کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ کورٹ کچہری سے واسطہ پڑنے پر ہر شخص کو ان کا براہِ راست تجربہ ہوتا ہے جبکہ پچھلے چند برسوں کے دوران ملک کی عدلیہ کے سربراہوں نے ان نقائص کو دور کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں جھوٹی گواہی کی روک تھام، مقدمات میں غیر ضروری طور پر التوا کی درخواستوں کی منظوری اور لمبی مدت کی تاریخیں دینے پر پابندی، عدالتی نظام کو تیز رفتار بنانے کے لیے جدید برقی اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا استعمال وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تاہم پولیس اور دیگر اداروں کے تفتیشی طریق کار کے نقائص جن کی بنا پر بسا اوقات حقیقی مجرم بھی عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں اور بے گناہ برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں، مقتدر عناصر کی جانب سے پولیس اور تفتیشی اداروں کا سیاسی اہداف کے حصول کی خاطر استعمال جس سے احتسابی عمل کی شفافیت متاثر اور اسے انتقامی کارروائی قرار دیے جانے کی راہ ہموار ہوتی ہے، عدالتوں اور وکیلوں کی بھاری فیسیں جن کا بندوبست ایک عام شہری کے لیے محال ہوتا ہے اور نظام انصاف کے ایسے ہی دیگر متعدد پہلو فوری اصلاح کے متقاضی ہیں۔وزیراعظم نے اصلاحاتی کمیٹی کو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا پابند کیا ہے اور امید ہے کہ قانونی ماہرین پر مشتمل یہ کمیٹی مفید اور قابل عمل تجاویز پیش کرے گی تاہم نظام انصاف میں اصلاحات جیسے اہم ترین کام میں وسیع تر مشاورت کے ذریعے وکلا تنظیموں اور عدلیہ کے موجودہ اور سابق ارکان کی شرکت ضروری محسوس ہوتی ہے جبکہ حتمی مرحلے میں ان تجاویز پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل مباحثے کا اہتمام اور پھر اتفاق رائے ورنہ حتی الامکان زیادہ سے زیادہ کثرت رائے سے ان کی منظوری ان اصلاحات کو غیر متنازع بنانے کے لیے لازمی ہوگی۔

تازہ ترین