یہ ایک کُھلی حقیقت ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری وسائل اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پاکستانی فلم انڈسٹری سے بہت آگے ہے۔ بالی وڈ فلموں کی مارکیٹ بھی دُنیا بھر میں قائم ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی فلمیں اربوں روپے کا بزنس کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ہماری پاکستان فلم انڈسٹری نسبتاً ایک چھوٹی صنعت ہے۔
محدود سرمایہ، وسائل کی کمی اور محدود فلمی مارکیٹ کے باوجودہمارے فن کاروں اور تخلیق کاروں نے محنت، لیاقت، ذہانت اور تخلیقی جذبوں کی بدولت اس صنعت کی آبیاری کی اور سخت حالات میں بھی ایسی شاہ کار فلمیں تخلیق کیں کہ انہوں نے باکس آفس پر مثالی کامیابیاں حاصل کرکے نہ صرف فلمی صنعت کے استحکام اور فروغ میں اپنا کردار ادا کیا، بلکہ اپنی جاندار کہانی مضبوط ٹریٹمنٹ، فن کاروں کی متاثر کن کردار نگاری اور جاندار میوزک و نغمات کے سبب دُنیا کی بڑی فلم انڈسٹری بالی وڈ کے فلم میکرز کو نہ صرف انسپائر کیا، بلکہ انہیں کاپی یا نقالی پر مجبور کردیا۔
گو کہ پاکستانی فلم میکرز نے بھی بالی وڈ فلموں کو کاپی کیا اور ان کی اصل فلم سے قدرے بہتر کاپی فلمیں بنائیں۔ اس کے برعکس انڈین فلم میکرز نے ہماری شاہ کار فلموں کو بھرپور وسائل اور بڑے کاسٹ کریڈٹ کے ساتھ کاپی کرنے کے باوجود کبھی بھی معیار میں اصل فلم پر برتری ثابت نہیں کی۔ پاکستان کے سب سے بڑے اور کام یاب فلم ڈائریکٹر نذرالاسلام نے 1977ء میں ’’آئینہ‘‘ کی صورت میں جو شاہ کار تخلیق کیا، نامور اداکار ندیم اور شبنم نے اس فلم میں مرکزی کرار ادا کیے۔ اس کے ٹریٹمنٹ اور تکنیکی معیار نے بھارت کے بڑے بڑے فلم میکرز کو بھی چونکا دیا۔
محض چونکایا ہی نہیں، بلکہ اس بات پر مجبورکردیا کہ وہ ’’آئینہ‘‘ کو من و عن کاپی کریں۔ سو ڈائریکٹر وجے سادھنا نے ’’آئینہ‘‘ کی ڈیٹو کاپی ’’پیار جھکتا نہیں‘‘ کے عنوان سے تیار کی جس میں متھن چکرورتی نے ’’ندیم‘‘ والا رول، پدمنی کولہا پوری نے ’’شبنم‘‘ کا … ڈینی نے ’’ریحان‘‘ کا اور بندو نے ’’بہار بیگم‘‘ والا رول پلے کیا۔ فلم کی موسیقی لکشمی کانت پیارے لال نے مرتب کی، جب کہ چائلڈ اسٹار ماسٹر روفی والا رول بھارتی چائلڈ فن کار ماسٹر وکی نے ادا کیا ۔ یہ فلم 11؍ جنوری 1985ء کو بھارت میں عام نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ فلم کسی بھی شعبے میں آئینہ کو نہ چُھو سکی۔ خاص طور پر متھن چکروری نے لیجنڈ اسٹار ندیم والے رول کو تباہ کردیا۔
تاہم پدمنی کولہاپوری کی پرفارمنس ہرچند کہ شبنم کے معیار کی ہر گز نہیں تھی، پھر بھی انہوں نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ پدمنی کے بقول ’’ڈائریکٹر وجے سادھنا نے انہیں فلم آئینہ کا ویڈیو کیسٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہیروئن کے رول، پرفارمنس، بوڈی لینگویج کو بار بار دیکھو اور بالکل اسی طرح آپ کو پرفارم کرنا ہے‘‘… 1985ء ہی میں ہدایت کار شکتی سامنتا نے پاکستانی ہدایت کار پرویزملک کی خُوب صورت گولڈن جوبلی، معیاری تخلیق ’’مہربانی‘‘ کو ’’الگ الگ‘‘ کے ٹائٹل سے من و عن کاپی کیا۔ فلم ’’مہربانی‘‘ میں جو کردار ندیم، بابرہ شریف، محمد علی، سجاد کشور اور عشرت چوہدری نے ادا کیے تھے ’’الگ الگ‘‘ میں وہ بالترتیب راجیش کھنہ، ٹینا امباتی، ششی کپور، اوم شیوپوری اور گیتا سدھرات نے ادا کیے۔ فلم کی موسیقی عظیم موسیقار آرڈی برمن نے مرتب کی۔
تقابل سے قطع نظر ’’الگ الگ‘‘ ایک میعاری فلم تھی، لیکن ’’مہربانی‘‘ کے معیار کو کسی بھی شعبے میں نہ چُھوسکی۔ بالخصوص شعبہ اداکاری میں ندیم والے کردار میں بھارتی سپر اسٹار راجیش کھنہ بہت غیر موزوں اور غیر مناسب لگے۔ موسیقار آرڈی برمن نے فلم کے لیے بہترین موسیقی موزوں کی، لیکن یہ مایہ ناز موسیقار بھی کاپی فلم میں کاپی دُھنیں بنانے پر مجبور نظر آیا۔ ’’مہربانی‘‘ کے دو گیت ’’کبھی خواہشوں نے لوٹا‘‘ اور ’’تیرے بنا جی سکیں گے نہ ہم‘‘ جیسے گیتوں کی نہ صرف شاعری بلکہ دُھنیں بھی فلم ’’مہربانی‘‘ سے کاپی کی گئیں۔ یہ فلم 27؍ ستمبر 1985ء کو بھارتی سنیما ہاؤسز کی زینت بنی۔
انگریزی ناول نگار ایملی برونٹے نے ناول (ودرنگ ہائٹس) تخلیق کیا، تو ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ میں اس ناول پر مختلف ادوار میں متعدد بار طبع آزمائی ہوئی۔ ہالی وڈ میں اسے ’’ودرنگ ہائٹس‘‘ کے نام سے فلمایا گیا، جب کہ بھارت میں بلیک اینڈ وہائٹ دور میں اسے ’’آرزو‘‘ کے نام سے فلمایا گیا، جس کے ہدایت کار لطیف شاہد تھے اورہیرو دلیپ کمار، دوسری بار رنگین ٹیکنالوجی پر بھارت میں ’’دل دیا درد لیا‘‘ کے نام سے فلمایا گیا۔ ہیرو اس بار بھی دلیپ کمار ہی تھے، لیکن باکس آفس پر یہ دونوں فلمیں زیادہ رنگ نہ جما سکیں۔
پھر 1983ء میں پاکستان کے بڑے فلم ساز ادارے نورانی پکچرز نے اسے’’دہلیز‘‘ کے ٹائٹل سے پروڈیوس کیا۔ دہلیز کا اسکرپٹ ماسٹر آف اسکرین پلے سید نور نے تحریر کیا اور اصل کہانی سے ہٹ کر اس میں بہت ساری تبدیلیاں کیں۔ دہلیز نے نہ صرف معیاری حوالے سے ناقدین کو متاثر کیا، بلکہ باکس آفس پر دُھواں دھار بزنس کرتے ہوئے شان دار ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ ’’دہلیز‘‘ کے معیار اور کام یابی کی گونج بھارت میں پہنچی تو ہدایت کار ہرج سادھنا نے اسے ’’اونچے لوگ‘‘ کے عنوان سے کاپی کیا اور اس طرح کاپی کیا کہ جس رنگ کے اور جس تراش کے کپڑے دہلیز کے ہیرو ’’ندیم‘‘ نے زیب تن کیے تھے، بالکل اسی رنگ اور تراش کے کپڑے ’’اونچے لوگ‘‘ کے ہیرو راجیش کھنہ کو پہنائے گئے۔ حویلی کا سیٹ جوں کا توں نقل کیا گیا، حتی کہ قالینوں کے پرنٹ اور رنگت بھی وہی تھی جو ’’دہلیز‘‘ میں تھی۔ شبنم والا کردار سلمی آغا نے افضال والا ڈینی نے اور اسلم پرویز والا کردار پریم چوپڑہ نے ادا کیا۔
فلم کے لیڈ کرداروں راجیش کھنہ اور سلمی آغا نے ندیم اور شبنم والے کرداروں میں نہایت غیر معیاری پرفارمنس دی۔ ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ بھی ناقص اور غیر معیاری تھا۔ فلم کی موسیقی برمن دا،دی گریٹ نے مرتب کی ۔ اس بار چند معیاری دُھنوں کے ساتھ ساتھ وہ دہلیز فیم کمال احمد کی دُھن ’’تجھ کو اپنا نہ بنایا تو میرا نام نہیں‘‘ سیم ٹو سیم کاپی کرنے پر مجبور نظرا ٓئے اور کشور کمار جیسے بڑے سنگر نے اس گیت کو یُوں گایا جیسے دہلیز کے گیت کی پیروڈی کررہے ہوں۔ 8؍ نومبر 1985ء کو ریلیز ہونے والی یہ فلم پاکستانی شاہ کار تخلیق ’’دہلیز‘‘ کی ایک شرمناک کاپی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ہالی وڈ میں انگریزی ناول ’’ کریمر ورسز کریمر‘‘ پر فلم دی چیمپ The Champ بنائی گئی، تو پاکستان میں ہدایت کار پرویز ملک نے اس ناول کو پاکستانی کلچر اور ماحول کے قالب میں ڈھال کر 1981ء میں بہت ہی معیاری اور متاثرکن فلم ’’قربانی‘‘ تخلیق کی… قربانی اعلی معیار کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ باکس آفس پر بھی سپر ڈوپر ہٹ ثابت ہوئی اور ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ بھارت میں 1986ء ’’قربانی‘‘ کو ’’ادھیکار‘‘ کے نام سے کاپی کیا گیا۔ فلم ’’قربانی‘‘ میں جو کردار بالترتیب ندیم، شبنم اور ماسٹر خرم نے ادا کرکے انہیں امر کردیا تھا، انہی کرداروں کو ادھیکار میں راجیش کھنہ، ٹینا منیم اور ماسٹر لکی نے ادا کیا۔
فلم کا میوزک بپی لہری نے مرتب کیا۔ یہ فلم کسی طور پر ’’قربانی‘‘کے معیار کو نہ پہنچ سکی۔ یہ بھی دل چسپ اتفاق ہے کہ وہاں ’’ندیم‘‘ کی اکثر فلموں کے بنائے گئے چربوں میں ندیم کے ادا کردہ کرداروں کے لیے راجیش کھنہ ہی کا انتخاب کیا گیا ، لیکن باوجود اس کے کہ راجیش کھنہ بالی وڈ کا ایک بڑانام تھے، لیکن وہ ان کرداروں میں ندیم کے معیارکا کام کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے۔ 1984ء میں پاکستانی سنیما کے مایہ ناز فلم ڈائریکٹر آغا حسن عسکری نے ایورنیو پکچرز کے لیے ’’دوریاں‘‘ کے ٹائٹل سے ایک ایساشاہکار تخلیق کیا، جسے پاکستان کی شاہکار فلموں میں سرفہرست تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ فلم ہے، جس کے معیار اور ٹریٹمنٹ لیجنڈری دلیپ کمار نے بھی دیکھ کر بے حد سراہا اور اسے پاکستانی سنیما کی غیر معمولی تخلیق قرار دیا۔
کامیڈی فلموں کے حوالے سے شہرت رکھنے والے بھارتی ڈائریکٹر ڈیوڈ دھون کے دماغ میں یہ سودا سمایا کہ وہ ’’دُوریاں‘‘ کو کاپی کریں گے، سو انہوں نے اس کہانی کو ’’آندھیاں‘‘ کا نام دے کر 1990ء میں فلم بنائی، جس میں محمد علی کا کردار شتروگھن سے کروایا گیا ،جب کہ شبنم کے ادا کردہ لافانی رول کے لیے اداکارہ ممتاز کو خاص طور پر کم بیک کروایا گیا۔ فیصل الرحمن کے ادا کردہ بے مثل کردار کو پروسینٹ چٹرجی نے ادا کیا۔ نہ صرف یہ فلم ’’دوریاں‘‘ کی ڈپلی کیٹ کاپی تھی، بلکہ دوریاں کا شاہکار گیت ’’بس ایک تیرے سوا کوئی نہیں ہے میرا‘‘ شاعری اور کمپوزیشن کے اعتبار سے جوں کا توں نقل کیا گیا۔
فلم کا میوزک بپی لہری نے مرتب کیا تھا۔ یہ فلم 8؍ جون 1990ء کو بھارت کے طول و عرض میں نمائش پذیر ہوئی، لیکن نہ تو ناقدین نے اسے سراہا اور نہ ہی بھارتی باکس آفس پر مقبول ہوسکی۔ 1987ء میں مصنف محمد پرویز کلیم نے محمد جاوید فاضل کے لیے ’’بازار حسن‘‘ کے عنوان کے تحت نہایت شان دار کہانی اور جاندار مکالمات سے آراستہ اسکرپٹ تحریر کیا، جسے جاوید فاضل نے بڑی محنت اور ذہانت سے سلولائیڈ پر منتقل کیا اور یُوں ’’بازار حسن‘‘ کی صورت وہ شاہ کار تخلیق ہوا کہ جسے بھارتی فلم ڈائریکٹر راج کمار کوہلی نے ’’پتی پتنی اور طوائف‘‘ کے ٹائٹل میں لپیٹ کر اپنے تئیں ایک بڑی فلم بنانے کی کوشش کی۔ متھن چکرورتی نے وہ کردار کیا جو بازار حسن میں ندیم کرچکے تھے ، جب کہ ثمینہ پیرزادہ کے ادا کردہ کردار کے لیے فرح کا انتخاب کیا گیا تھا اور سلمی آغا نے وہی کردار سنبھالا جو وہ ’’بازار حسن‘‘ میں کرچکی تھیں۔
اس فلم کا میوزک لکشمی کانت پیارے لال نے مرتب کیا تھا۔ اس فلم کی بھارت میں نمائش 18؍ مئی 1990ء کو ہوئی۔اس مضمون میں ہم نے بھارت میں بنائی جانے والی ایسی چند فلموں کی تفصیل دی ہے جو کہ پاکستانی فلموں کا چربہ تھیں۔ مختصراً ہم یہ بھی بتادیں کہ نذرالاسلام کی ’’پیاسا‘‘ کو ’’ساجن‘‘ اقبال یوسف کی ’’جوش‘‘ کو ’’ستے پہ ستہ‘‘ حسن عسکری کی ’’بے قرار‘‘ کو ’’دیوانہ مجھ سا نہیں‘‘ ہدایت کار ایس سلیمان کی ’’انسانیت‘‘ کو ’’باغبان‘‘ کے نام سے کاپی کیا گیا، جب کہ درجنوں پاکستانی فلمیں اور بھی ہیں، جنہیں بھارتی فلم میکرز نے چربہ کیا۔