ڈاکٹر حسن منظر موجودہ دور کے ہی اردو کے صفِ اول کے افسانہ و ناول نگار نہیں ہیں بلکہ اردو فکشن کی مجموعی تابندہ روایت میں بھی وہ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔وہ بلاکے کہانی کار ہیں۔اُن کے افسانے ہوں کہ ناول،سب میں وہ اپناالگ رنگ جماتے ہیں۔معروف ادیب ڈاکٹر انور سدید کا کہنا تھا کہ’ڈاکٹر حسن منظر کے ناول پر اُن کا نام نہ بھی لکھا ہو تو میں کسی توقف کے بغیر پہچان لوں گا کہ اس کا مصنف حسن منظر کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا‘۔
حسن منظر کی کہانیاں پڑھنے والا یہ سوچے بغیر نہیںرہ پاتا کہ یہ کہانیاں کہاں تھیں جو پہلے نہیں لکھی گئیں۔ڈاکٹر حسن منظر کے یہاں یہ غوروفکر کا سامان بھی ساتھ لے کر آتی اور پڑھنے والے کو ایک تازہ احساس سے ہمکنار کردیتی ہیں۔اپنے افسانوں کے ذریعے وہ پڑھنے والوں کے درِدل پر دستک دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔پڑھنے والا البتہ پہروں دل کا دروازہ کھولے،ایک نئے احساس سے شادکام ہوتا رہتا ہے۔افسانے کا انجام اگر اداس کردینے والا ہے تو پھر ایک غم انگیز تفکر ذہن کو حلقہ کیے رکھتا ہے۔
ناول میں یہی کام ذرا بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ناول کے ساتھ ایک منظر نامہ، منظر نامے کی جزئیات سے بنتی ہوئی ایک فضا،کرداروں کی چلت پھرت،اُن کی عام روز مرہ گفتگو اور شخصیت کی بیان کردہ تفصیلات میں سے نکل کر سامنے آنے والا ایک سماجی و نفسیاتی پیکر،ان سب کی پیشکش میں ڈاکٹر حسن منظر کو کمال حاصل ہے۔’وبا‘ کے علاوہ اُن کے ناول ’العاصفہ ‘، ’ دھنی بخش کے بیٹے‘ اور ابھی حال ہی میں منظر عام پر آنے والا’اے فلکِ ناانصاف‘ اُن کے تخلیقی وفور کے مظہر ہیں ،حالانکہ زندگی کا ایک بڑا حصہ انہوں نے کچھ اس طورملک اور بیرونِ ملک پیشہ و رانہ مصروفیات کی نذر کیا کہ بقول خود، اس دوران ادبی کام تقریباً معطل تھا۔۱۹۷۳ میں حیدرآباد میں آکر سکونت پذیر ہوئے تو پریکٹس کے علاوہ تخلیقی کام کے لیے وقت نکالنا ممکن ہوگیا اور یوں ادب کے قاری کی بن آئی۔اب وہ کراچی میں ہیں اور خیر سے تخلیق کا سفر جاری ہے۔
’وبا‘ ،عام ناولوں سے مختلف ناول ہے۔ناولوں میں عموماً ایک بڑی کہانی، مرکزی دھارے کے طور پر آگے بڑھتی ہے۔آس پاس کی کہانیاں جو ناول کے کرداروں ہی کے جلو میں آتی ہیں،اس دھارے میں یوں سموتی جاتی ہیں جیسے جھرنے، بہتے دریا میں آکر ان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔’وبا‘ میں بھی کردار ہیں،اُن کی تفصیلات بھی ہیں_ڈاکٹر ہیں،نرسیں ہیں اور دوسرا میڈیکل اسٹاف ہے،اور بہت سے مریض،ان کے رشتہ دار اور تیماردار ہیں۔لیکن یہ سب مل کر کوئی ایک کہانی نہیں بناتے،بلکہ ان سب سے مل کر ایک ماحول،ایک اسپتال کا ماحول وجود میں آتا ہے_’وبا‘ ایک ماحول ساز ناول ہے۔
سو بات یہاں حسن منظر کے اسپتال کی ہورہی تھی جس کا ایک بھرپور ماحول مصنف نے تخلیق کیا ہے۔ یہ ماحول ہے ایک ایسے اسپتال کا جو وبائی امراض کے لیے مخصوص ہے۔جن دنوں کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے،اُن دنوں شہر میں چیچک کی وباپھیلی ہوئی ہے ۔یہ میونسپلٹی کا اسپتال ہے اور اس میں چیچک کے علاوہ ڈفتھیریا کے مریض بھی داخل ہورہے ہیں۔ان کے الگ وارڈ ہیں ۔یہ چونکہ ایک سرکاری اسپتال ہے لہٰذا اس پر پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔زمانہ بھی متعین کرنا چاہیں،تو سمجھیں یہ اب سے ساٹھ پینسٹھ سال پہلے کا کراچی کا اسپتال ہے۔
اسپتال کے اندر مصروف ِ کارکرداروں میں ڈاکٹر ہیں،نرس اور دوسرا طبی عملہ ہے۔پھر مریض ہیں اور مریضوں کے ساتھ آنے والے عزیز رشتہ دار یا پھر ملاقات کے وقت میں ملنے کے لیے آنے والے۔ ڈاکٹروں میںسب سے سینئر،ڈاکٹر عبداللہ مصطفی ہیں۔بالکل پروفیشنل اور کھرے آدمی۔پرانی وضع کے آدمی ہیں،کفایت شعار ایسے ہیں کہ گورنمنٹ کے خرچے کوایسے سمجھتے ہیںجیسے وہ اُن کی جیب سے جارہا ہو۔اسپتال کے کمپائونڈ میں رہتے ہیں۔اسپتال میں اتنی مدت ہوچکی ہے کہ اب مریضوں کو مرتا دیکھنا روز کا معمول بن چکا ہے اور خاص طور سے ان وبا کے دنوں میں۔بقول ناول نگار’آخر کو ڈاکٹر مصطفی کی آنکھوں کا آنسوئوں کا خزانہ محدود تھا۔کتنے دن ساتھ رہتا؟ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے تک؟انسان تو بادل بھی نہیں ہوتا جو کھل کر برس لینے کے بعد نیا پانی لانے کو سمندر کی طرف لپکتا ہے‘۔ناول کے اختتام تک پہنچنے تک ڈاکٹر مصطفی کے ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آچکتا ہے۔
ایک اور ڈاکٹر،ڈاکٹر انیس ہے۔زیادہ سینئر نہیں ہے ،جوان ہے ،توانائی بھی بہت ہے اور پیشہ ورانہ سنجیدگی بھی۔ہمیشہ مریض اور اس کے گھر والوں کی پہنچ میں رہتا ہے۔جب سے چیچک کی وبا پھیلی ہے اس نےاسپتال کی لیبارٹری میں سونا شروع کردیا ہے۔اتنا تجربہ ضرور ہوچکا ہے کہ مریضوں کے رویّوں اور ردعمل کو خوب سمجھنے لگا ہے۔ایک موقع پروہ کہتاہے: ’میرا خیال ہے بچوں کے علاج میں دو لمحے اس کے ماں باپ اور ڈاکٹر پر سب سے سخت ہوتے ہیں:ایک،بچہ خاموشی سے بغیر معمولی سی بھی آواز نکالے انجیکشن لگوالے۔اور دوسرے،اُس سے بھی سخت وہ وقت جب بولتا ہوا بچہ تکلیف کی شدت میں خود انجیکشن لگوانے کے لیے کہے‘۔ڈاکٹر انیس فرض شناس ہے۔رات کو بلائے جانے پر سونے کے کپڑوں میں ٹائولنگ گائون پہن کر وارڈ کی طرف بھاگتا ہے۔ڈاکٹر انیس کی شادی ہونے والی ہے مگر کیا وہ اپنی بیوی کو وقت دے سکے گا، اُس کی زندگی تو اسپتال کی نذر ہوچکی ہے۔
ناول نگار لکھتے ہیں:’ایسا نہیں ہے کہ اس کے دل کے نہاں خانے میں کوئی بُت نہیںہے،کچھ دور دور کے لگائو دو تین مرتبہ ہوئے تھے لیکن اتنی آسانی سے آئے اور گزر گئے جتنی سرعت سے خواب پلک جھپکتے میں آتے اور غائب ہوجاتے ہیں‘۔ایک موقع پر خود کلامی کرتے ہوئے ڈاکٹر انیس نے کہا تھا:’ میں وہ بدنصیب ہوں جس کی کوئی لڑکی نہیںہے‘۔یہ جملہ اس نے اردو میں کہا تھا اسی لیے وہ خود بھی ہنس پڑا تھاکیونکہ اردو میں اس کا مفہوم کچھ اور تھاجو اُس کا مقصود نہیں تھا۔شاید اس نے یہ جملہ سوچا انگریزی میں تھا۔ڈاکٹر انیس ناول میں کئی مقام پرجگہ پاتا ہے۔ناول کاا ختتام بھی اسی کے ذکر پر ہوتا ہے۔
ایک ڈاکٹر مدحت ہے،بیوی بچوں سے دور اسپتال کے قریب ایک کوارٹر میں اُس کی سکونت ہے،ناول میں کئی جگہ مصروفِ کارنظر آتا ہے۔امریکی لیڈی ڈاکٹر جین وولف(Jane Wolff)ہیں۔ انتہائی ہمدرد اور مخلص۔وہ ہر مریض کی دلجوئی کرتی نظر آتی ہیں۔مریضوں کی دانوں بھری بانہوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں،اندازہ ہوتا ہے کہ مشنری ہیں اور پیشہ ورانہ خدمت میں مذہبی جذبہ بھی شامل ہے۔حسن منظر نے ایک مسیحی کردار کو،جو اسپتال میں یوں خدمت سرانجا م دیتے دکھایا ہے تو گویا سینکڑوں اسپتالوں کے اندرمسیحیوں کی نمائندگی کروائی ہے۔ان میں سے بیشتر صرف ڈاکٹر ،نرس اور دوسرے طبی عملے کے افراد نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے اپنے مذہب سے مریضوں کی خدمت کا جذبہ بھی کشید کیا ہوتا ہے۔جین وولف کے لیے یہ بھی بڑی حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان میں صرف چیچک ہی نہیں بلکہ سگ گزیدگی،پولیو اور دیگر ایسے امراض بھی پائے جاتے ہیں جو امریکہ میں اب صرف طب کی کتابوں میں اپنا وجود رکھتے ہوں تو رکھتے ہوں۔ان کو بتایا جاتا ہے کہ کس طرح ایک مکرانی بچی کو مرغے کے کاٹنے کی وجہ سے ٹیٹنس اور ایک ساربان کو اونٹ کے کاٹے سے ریبیز کی بیماری لاحق ہوئی ۔
اسپتال میں کئی اور بھی ڈاکٹر موجود ہیں۔کچھ کُل وقتی ہیں اور کچھ ایک خاص وقت میں پریکٹس کرتے ہیں۔ان کے علاوہ بہت سی نرسیں ہیں ،ہر ایک کااپنا پس منظر اور مزاج ہے ۔گوآ کی ایک نرس ہے ،دن میں اسّی کے قریب سگریٹ پیتی ہے اور اسی نسبت سے’ سِسٹر ایٹی ‘کہلاتی ہے ۔اسپتال کے کوارٹر میں رہتی ہے۔ہر مہینے اس کا شرابی بھائی ’الفانسو ڈی نو گُڈ‘ آتا ہے اور سِسٹر ایٹی کی تنخواہ میں سے اپنا حصہ لے کر چلا جاتا ہے۔ایک اور نرس ڈوروتھی کرافورڈ ہے،اینگلو انڈین ہے،انتہائی کارگزار اور پھرتیلی۔ڈاکٹر انیس سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے شرارت آمیز نظروں کے ساتھ کہتی ہے،آپ مجھے ڈورا کہہ کر پکار سکتے ہیں۔
ایک نرس سِسٹر میری جوزف ہے۔پنجاب سے اس کا تعلق ہے اور پنجابی ہی میں بات کرنا اس کو زیادہ مرغوب ہے۔پھر سِسٹر سارہ ہے،مریضوں کی خدمت میں پیش پیش۔ساری ہی نرسیں فرض شناس ہیں اور حسن منظر نے دکھایا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ اگر سب ا نسانیت کے صحیح جذبے سے سرشار ہوں تو درد کا رشتہ ان کو کس طرح ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔
اسپتال کے عملے میں وارڈ بوائے بھی ہیں جن کے ہونے کا احساس اُن کی باآوازِ بلند ہدایتوں سے بھی ہوتا ہے_’مریض کے ساتھ بس ایک آدمی رہے گا‘،’نیم کی شاخ مریض پر ہلاتے رہو،مکھیاں نہ بیٹھیں‘۔ایک کردار صادق کا ہے جو اپنے کام کے علاوہ گھٹنا بٹھانے کا بھی ماہر ہے۔
گیٹ پر تعینات رمضان کو وقتاً فوقتاً کسی وارڈ میں کسی مریض کے سرہانے یٰسین شریف پڑھنے کے لیے بلوایا جاتا ہے۔امام کا انتظام نہ ہو تو وہ مردہ وارڈ کے باہر نماز ِ جنازہ بھی پڑھا دیتا ہے۔ایک پادری صاحب ہیں،اتوار کے اتواراسپتال میں آتے ہیں ،بیماروں کے بیڈ کے پاس جاکر دعا کرتے ہیں، وارڈ کے دروازے پر کھڑے ہوکر دعاپڑھتے ہیں اور ہاتھ سے سینے پر صلیب کا نشان بناتے ہیں۔
اسپتال کی دنیا میں سبھی لوگ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود اضافی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔اصل لوگ جو اسپتال کو اسپتال بناتے ہیں وہ مریض ہوتے ہیں۔حسن منظر کے ناول میں دسیوں مریضوں کا احوال کچھ یوں درج ہوا ہے کہ ہر مریض کی کہانی اور اس کا پس منظر سامنے آجاتا ہے حالانکہ مصنف نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی ہوتی۔زیادہ تر مریض چیچک کے ہی ہیں۔اس کے علاوہ ڈفتھیریا کے مریض بھی ہیں۔ٹیٹنس کے بھی مریض ہیں یہ بیماری بھی طرح طرح سے لگی ہے۔کسی کو ننگے پیر سڑک پپر چلنے سے،کسی کو کان گندے تار سے چھدوانے سے،کسی عورت کی نال کاٹنے والی قینچی گندی تھی، سو ماں اور بچہ دونوں ٹیٹنس کا شکار ہوگئے،کسی کو مرغے نے کاٹ لیا اور وہ ٹیٹنس کا مریض بن گیا۔کچھ مریض ہیں جن کی آنکھوں میں ابھی امید ہے ۔کچھ ہیں جن کی آس ٹوٹ چکی ہے۔
حسن منظر ایک جگہ لکھتے ہیں:’قدرت کا ہاتھ جہاں پر عطا میں،کہیں فیاض،کہیں مُمسک نظر آتا ہے،حادثے اور بیماریاں تقسیم کرتے وقت بھی اپنے اسی اصول پر کاربند رہتا ہے‘۔فرانسس لوبو نوجوان ہے،بیماری کی شدت غالب ہے۔ماں کُل وقتی طور پر بیٹے کے ساتھ موجود ہے۔سیما جوان مریضہ ہے۔چیچک کے دانے سوکھ چکے ہیں۔کھرنڈ چہرے سے اکھڑ کر سفید چادر پر گر رہے ہیں۔اس حالت میں بھی خود کو سویٹر بُننے میں مصروف کررکھا ہے۔نرسیں بتاتی ہیں کہ وہ سوئیٹر باہر نہیں لے جاسکے گی ۔سیما بضد ہے کہ وہ ساتھ لے کر جائے گی۔اس کا کہنا ہے کہ اس سال اس نے ابھی تک اُن کے لیے سویٹر نہیں بُنا ہے۔
فاطمہ ایک بیڈ پر زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے۔مُلّا شوہر سے چھپ کر اس نے بچہ گروانے کی کوشش کی تھی،کیس بگڑ گیا، اب اسپتال میں ہے۔ساڑھے تئیس سال کی عمر میں سات حمل پہلے ہوچکے ہیں۔آٹھواں اس نے گروانا چاہا ،اب ٹیٹنس وارڈ میں پڑی ہے،مو ت کا انتظار ہے۔
ایک بوڑھا ہے۔ایک کاغذ میں کچھ لیے پھر رہا ہے۔یہ اس کے پوتے کی آنکھوں کے دو لینس ہیں آنکھوں کو روئی کے پھویوں سے صاف کرتے ہوئے یہ باہر نکل آئے ہیں۔دادا ڈاکٹرز سے پوچھتا ہے کہ یہ لُڈن کو دوبارہ لگ جائیں گے؟ ڈاکٹر کی خاموشی پر بوڑھا چپ ہے، اب اس کے پاس رونے کو دو آنسو بھی نہیں بچے ہیں۔روبی نے اسپتال میں دس دن گزارے ہیں۔آئی بہت بری کیفیت میں تھی لیکن اب طبیعت سنبھل چکی ہے ۔اسپتال سے جاتے ہوئے اس نے ڈاکٹر انیس کو گلابی رنگ کا پرس دیا ہے، ڈاکٹر انیس کی بیوی کے لیے ،جو ابھی ہے ہی نہیں۔
مریضوں کے علاوہ ان کے ساتھ ٹھہرنے والے دوست یا عزیز اور پھر ملاقات کے وقت آنے والے ملاقاتی ہیں۔یہ بھی اسپتال کا ناگزیر حصہ ہیں۔بیمار بچوں کی مائیں اضطراب کی دلدوز تصویر بنی ہوئی ہیں۔نماز پڑھ رہی ہیں۔کوئی تسبیح اور پنج سورہ پڑھ رہی ہے۔احمد کی ماں نے نہ کھانا کھایا ہے نہ چائے پی ہے۔اس کا ایک ہاتھ بچے کے اوپر مستقلاً رکھا ہوا ہے۔سلہٹ آسام کا علیم الرحمٰن بچ گیا ہے۔اُس کا بنگالی دوست ڈاکٹر انیس کو دس روپے اپنی خوشی سے دے رہا ہے جو ڈاکٹر شکریے کے ساتھ واپس کرتا ہے:’تمہارا دوست ٹھیک ہوگیا ہے اس کی تم جا کر مٹھائی کھائو‘۔صادق ہدایت دے رہا ہے مریض کے ساتھ ایک ہی جائے گا باقی باہر رہیں۔رات کو جب اسپتال کے آس پاس سڑکیں ٹریفک سے خالی ہوجاتی ہیں تو یہ ہم زبان سڑکوں پر پڑے رہتے ہیں اور صبح تک سوتے رہتے ہیں۔اِلّایہ کہ ان کا مریض گزر جائے۔حسن منظر اسپتال کے حوالے سے پٹھانوں کی جس باہمی یک جہتی کا منظر دکھاتے ہیں وہ شہری معاشرت میں داخل ہونے والے فرسٹ جنریشن پختونوں کا عمومی رجحان ہے۔’پختون ولی‘ کی آغوش میں پلے ہوئے پشتون ،شہر آنے کے بعد فوراً اپنی قبائلی روایات اور اخلاقیات سے بے بہرہ نہیں ہوجاتے۔
اختر حمید خان اپنی کتاب ’’کومیلا سے اورنگی تک‘‘ میں کہتے ہیں کہ پختونوں کا قبائلی حفظِ مراتب کا نظام بعض اوقات شہروں میں منصوبہ بندی میں کارآمد بھی بن جاتا ہے۔اپنی مدد آپ کے منصوبوں پرعملدرآمد میں صرف قبائلی مَلِک کو قائل کرلینے سے پختونوں کا پورا محلہ قائل ہوجاتا ہے اور ہر گھر کے مکین کو فرداً فرداً قائل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔حسن منظر نے سادہ لوح اور باہمت پٹھانون کا بہت محبت سے ذکر کیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اکّا دُکا دلچسپ تبصرے بھی کر گزرتے ہیں۔ مثلاً ’اپنی بوکھلاہٹ میں پٹھا ن دوسرے کو بھی پٹھان بنا دیتا ہے‘۔
ڈاکٹروں ،نرسوں،دیگر طبی عملے ،مریضوں اور ان کے لواحقین کے علاوہ اسپتال کو اسپتال بنانے والی دیگر چیزیں بھی ’وبا‘ کے صفحات میں منظر کا حصہ بنتی ہیں۔اسپتال کی لیبارٹری ،دوائیں، طبی آلات،کھانے کی ٹرالیاں، اسپتال کے منظر کا حصہ ہیں۔ناول میں ایک اور طبقے کا بھی ذکر موجود ہے۔سوٹ اورٹائی میں ملبوس فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے نمائندے جو دوائوں کی تشہیر کے لیے آتے ہیں ،ڈاکٹروں کو نئی دوائوں سے متعارف کرواتے ہیں، ان کے لیے تحائف بھی لے کر آتے ہیں۔میڈیکل اسٹو ر کے انچارج سے کچھ دوسری طرح کا لین دین بھی ان کا ہوتا ہے۔ایکسپائر ہوجانے والی دوائیں میڈیکل اسٹور کے انچارج کے ذریعے فروخت ہوجاتی ہیں۔
ایک دلچسپ مرحلہ ناول میں وہ ہے کہ جب میونسپلٹی کے اسپتال پر پریس میں منفی رپورٹ آجاتی ہے۔حکومت کے لیے یہ بھی بدنامی کا باعث ہے ۔سو اسپتال میں معائنے کے لیے فوجی عملہ بھجوایا جاتا ہے۔ایک بریگیڈیئر صاحب میڈیکل اسٹور کا معائنہ کرتے ہیں، ڈاکٹروں سے جرح کرتے ہیں ،ایک سرکاری سِول اسپتال دیکھنے کا ان کا پہلا موقع ہے وہ مختلف خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہیں اسپتال کے لان کی کیاریوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر بھی اعتراض ہے۔
لیکن وہ وارڈوں کا معائنہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ڈاکٹر انیس جب انہیںوارڈوں میں لے جانا چاہتے ہیں تو وہ یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ وہاں بیماری لگ جانے کا اندیشہ ہوگا ۔اسپتال کا سیر حاصل ذکر کرنے، اس کی مکمل تصویرپیش کردینے ،عملے اور مریضوں کے رویوں کی نشاندہی کے بعد ناول اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے۔اب دن بدن چیچک کے مریضوں کی آمد کم ہورہی ہے۔وبا اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ناول کا ہیرو کون ہے ؟بظاہر کوئی نہیں اور دراصل ہر ایک۔ سارے ڈاکٹر،نرسیں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور ان سب سے مل کر بننے والا خوداسپتال جہاں زندگی کی جنگ لڑی جاتی ہے ۔ادویات، جدید تر طبی آلات،طبی عملے کی لیاقت اور تجربہ، اس جنگ میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرنے والے سب سے اہم ہتھیار ہوتے ہیں۔ان سب کے بروئے کار آنے پر مریض کی صحت یابی دراصل سائنس کی کامرانی ہوتی ہے۔مریض کو شفا نہ ہو تو یہ ناکامی تحقیق کے لیے نئے چیلنج اور نئے سوالات پیدا کرتی ہے۔وبائیں انسانیت کے سفر میں اگلی منزلوں تک لے جانے کا وسیلہ بھی بنتی رہی ہیں۔