• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رشتے، ناتے اور تعلقات اس لئے استوار کیے جاتے ہیں کہ حالات و واقعات سے نبرد آزما ہونے میں آسانی ہو مگر ہمارے ہاں رشتے زنجیر اور تعزیر بنا دیے گئے ہیں۔ بالخصوص رشتہ ازدواج کو تو ایک ایسے کھونٹے کی شکل دیدی گئی ہے جس سے گدھے اور گھوڑے کو ایک ساتھ باندھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کی جاتی۔

شادی کا مقصد تو شریک حیات ڈھونڈنا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں ہر دو افراد کے پائوں میں بیڑیاں ڈالنے اور ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنانے کے بعد چابی گم کر دی جاتی ہے۔ بےجوڑ اور بےڈھب شادیوں کے بعد یہ درس دیا جاتا ہے کہ زندگی بھر کڑھتے رہو، ایک دوسرے کا جینا دشوار کیے رکھو، جیسے تیسے زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹ لو مگر کبھی طلاق کے بارے میں سوچنا بھی ناں۔

ایک طرف دلہا میاں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تمہاری غیرت اب اس عورت میں پنہاں ہے اگر یہ نگوڑی کسی غیرمرد کیساتھ ہنس کر بات کرتی پائی گئی تو تم کسی کو منہ دکھانے لائق نہ رہو گے۔ دوسری طرف دلہن کو باور کروایا جاتا ہے کہ تمہارا سہاگ مرد ہے اور مرد ذات کا کوئی بھروسہ نہیں، اس پر کڑی نظر رکھنا، شوہر کی مثال اس سرکش گھوڑے کی سی ہے جس کی طنابیں ایک بار ڈھیلی چھوڑ دیں تو سرپٹ دوڑتا ہوا بہت دور نکل جائے گا اور پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

بس پھر کیا، شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کو ’’را‘‘ اور ’’آئی ایس آئی‘‘ سمجھ کر اپنے اپنے نیٹ ورک کا جال بچھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے خفیہ ادارے ان کے سامنے کیا بیچتے ہیں، 007کے نام سے مشہور جیمز بانڈ تو ان سے جاسوسی کے حرف ابجد سیکھتا پھرتا ہے۔

موقع دیکھ کر ایک دوسرے کا موبائل فون چیک کرنا، سوشل میڈیا اکائونٹس کے پاسورڈ معلوم کرنے کے بعد ان باکس کی تلاشی لینا، وٹس ایپ پر تانک جھانک کرتے رہنا تاکہ پتا چلے ہمسفر آخری بار کب اور کتنی دیر کے لئے آن لائن تھا، کس لائن پر کتنی دیر نمبر مصروف رہا، کام والی سے بات کرنے کا انداز کیسا ہے، دفتر سے پانچ بجے چھٹی ہوتی ہے، گھر تک کا راستہ آدھے گھنٹے کا ہے تو ایک گھنٹہ کیوں لگ گیا؟ شوہر کے دوست رشید احمد کے نمبر سے رات گئے ’’مس یو‘‘ کا میسج کیوں آیا؟

ارشد پلمبر بار بار فون کیوں کرتا ہے؟ گھر سے نکلتے وقت مزاج خوشگوار کیوں تھا؟ آج ڈھونڈ کر سب سے اچھا سوٹ زیب تن کیا، پرفیوم بھی لگایا، آخر دال میں کچھ تو کالا ہے؟ دوستوں کیساتھ اتنا وقت بسر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کام کا بہانہ کرکے رات کو دیر سے گھر کیوں آئے؟

اس نوعیت کے تمام معاملات پر غور کرنا، شوہر کی ڈی بریفنگ اور حسبِ ضرورت تفتیش کرنا بیوی کا فرضِ منصبی سمجھا جاتا ہے اور وہ سوچتی ہے کہ اسے اس شخص پر تھانیدارنی مقرر کر دیا گیا ہے اور نکاح کے لاک اپ میں قید اس شخص کی زندگی اجیرن کیے رکھنا اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

اگر بیوی کو معلوم ہو کہ اس کا شوہر کسی اور عورت کے خواب دیکھ رہا ہے تو ان خوابوں کو عذاب بنانے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے اخراجات، مطالبات اور خواہشات میں بےپناہ اضافہ ہو جاتا ہے تاکہ شوہر کے پاس نہ فالتو پیسے ہوں اور نہ ہی وہ کسی اور خاتون پر خرچ کر سکے۔

اگر موبائل فون کے ذریعے اس خاتون کا نمبر تلاش کرنے کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تو اپنے شوہر سے کچھ کہنے سے پہلے اس خاتون کو ازلی دشمن قرار دیتے ہوئے لفظی گولہ باری کی وہ بوچھاڑ کی جاتی ہے کہ کوئی سن لے تو الامان الحفیظ پکار اُٹھے۔

میں مردوں یا عورتوں کے افیئرز کی حمایت یا مخالفت نہیں کر رہا، نہ ہی ایک سے زائد شادیوں کا پرچار اور تبلیغ کرنے کا خواہاں ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ عاقل و بالغ افراد کو اپنی مرضی سے رشتے جوڑنے اور توڑنے کی اجازت ہو۔ گھریلو زندگی قید نہ ہو، تعلق جرم نہ ہو، ساتھ بوجھ نہ ہو۔

رشتے اور ناتے راحت و سکون کا سبب ہوں، اذیت اور کرب کی وجہ نہ ہوں۔ پُرسکون زندگی گزارنے کے لئے کسی لمبے چوڑے فلسفے، آتم تیاگ، تپسیا یا ریاضت کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ٹرکوں کے پیچھے لکھا ایک جملہ دیکھا ہو گا ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘۔

اگر آپ کا جینا دشوار ہو چکا ہے، اگر آپ کو اپنے شریک حیات کی ادائیں، مزاج، انداز یا اطوار اس حد تک ناپسند ہیں کہ آپ غصے سے پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر اس غم سے گھلے جا رہے ہیں، اگر آپ کو اپنے ہمسفر سے متعلق بے وفائی کا یقین ہے اور آپ کو یہ بات کسی قیمت پر گوارا نہیں، اگر آپ کا تعلق بوجھ بن گیا اور آپ اسے اٹھا کر چلتے رہنے سے قاصر ہیں، اگر آپ کوشش کے باوجود پُرامن بقائے باہمی کا ماحول پیدا نہیں کر سکے تو ذاتی زندگی کو تماشا بنانے کے بجائے اپنی راہیں جدا کرلیں۔

اگر وہ شخص ناگزیر ہے تو پھر حالات سے سمجھوتا کر لیں۔ زندگی کے سفر میں کسی نہ کسی موڑ پر ہر ایک شخص آپ کو چوٹ پہنچانے کا موجب بنتا ہے اور آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ شخص آپ کے لئے زیادہ قیمتی ہے یا پھر چوٹ کا احساس زیادہ تکلیف دہ۔

آپ اپنے شریک حیات کو صرف محبت کی ڈور سے باندھ کر رکھ سکتے ہیں ورنہ کڑی سے کڑی نگرانی بھی کام نہیں آتی۔ اگر آپ شوہر ہیں اور بیوی بے وفا نکلی ہے تو اسے قتل کرنے یا اس کے آشنا کے ہاتھ سے خون رنگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

آپ اسے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دیں۔ اگر آپ کا خاوند دل پھینک ہے اور آپ کو یہ بات گوارا نہیں تو کسی اور کو کوسنے دینے کے بجائے اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لیں۔ اگر آپ کی طرف سے کوئی کمی نہیں اور آپ کی کوشش کے باوجود معاملات نہیں سدھر رہے تو پاکستان کے عدالتی نظام میں خلع لینے کا راستہ موجود ہے۔ زندگی گزارنے کا بس ایک ہی فلسفہ ہے ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘۔

تازہ ترین