• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا میں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ پر پولیس کے مبینہ تشدد کے بعد ہلاکت کے نتیجے میں نا صرف امریکا بلکہ متعدد یورپی ممالک میں آباد سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے باشندے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔

اس دوران جرمنی کی تاریخی دیوار برلن سے منسلک ایک پارک میں دیوار پر ’ایمے فری تھنکر‘ نامی مقامی فنکار نے جارج فلوئیڈ کی تصویر پینٹ کر کے فلوئیڈ کو ایک منفرد انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن کے ماور پارک میں دیوار کے ایک حصے پر امریکی سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کا وہ جملہ بھی تحریر کیا گیا ہے، ’آئی کانٹ بریتھ‘ یعنی مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے اور ان کے ساتھ یکجہتی کے لیے مختلف ہیش ٹیگ بھی درج کیے گئے۔

رواں ہفتے کے دوران نیویارک، لندن پیرس کی طرح برلن میں بھی جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف احتجاج اور انصاف کے لیے پر امن مظاہرے کیے گئے۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کو روکنے کے لیے شہروں میں ملٹری کے استعمال کی تڑیاں بھی لگائی تھیں۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے جارج فلوئیڈ کے لیے انصاف کے حق میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف طاقت سے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلتی آگ میں تیل ڈالنے کے بجائے مفاہمت کی جانب قدم بڑھانا چاہیے۔

دریں اثناء جارج فلوئیڈ واقعے کے تناظر میں جرمنی میں مقیم سیاہ فام جرمن شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ ملک میں نسل پرستی، اسلامو فوبیا اور غی ملکیوں خصوصاً سیاہ فام افراد کے خلاف نفرت کے معاملات کو اہمیت دیتے ہوئے موثر حکمت عملی تیار کی جائے۔

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے واقعے نے نا صرف امریکا بلکہ متعدد یورپی ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ معاشرے میں روزمرہ کی نوعیت پر پیش آنے والے نسلی تعصب اور امتیازی سلوک کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے مزید تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں، خاص طور پر بچوں اور نوجوان نسل کو اسکول میں ہی اسلامو فوبیا، سامیت مخالفت اور غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرنے والی شر پسند نظریے سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات لیے جائیں۔

جرمنی میں دائیں بازو کے شدت پسندوں پر نازی دور کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ سن 2015 میں خانہ جنگی سے دوچار ملک شام اور افریقی ممالک کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان سے لاکھوں پناہ گزینوں کی آمد کے بعد عوامیت پسند سیاسی جماعت ’اے ایف ڈی‘ یعنی متبادل برائے جرمنی بھی نمایاں طور پر منظر عام پر آئی۔

گزشتہ عام انتخابات میں اسلام اور تارکین وطن مخالف جماعت وفاقی پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔

جرمنی میں تارکین وطن پر نسل پرستانہ حملوں کے واقعات میں بھی بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال ہناؤ شہر کا واقعہ تھا جس میں ایک شخص نے شیشہ بار پر فائرنگ کرتے ہوئے نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

حکام کی جانب سے اس واقعے کو غیر ملکیوں سے نفرت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے متعدد مقامی سیاستدان اور صحافی ہیں، جنہیں غیر ملکیوں کی حمایت کرنے اور نسلی تعصب کی مخلافت کے سبب اکثر دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

تازہ ترین