• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت خداد ادپاکستان کا نظامِ مملکت تو کب کا بے نقاب بلکہ رسوا ہے لیکن کورونا نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ ہر شعبہ میں جاری ماتم سے صاف ظاہر ہے کہ حکمران طبقات کس قدر عوام اور عوامی اداروں سے لاتعلق رہے ہیں۔ سارا ملبہ موجودہ حکمرانوں پر یو ں ڈالنا خلافِ انصاف ہے کہ زمین بوس ادارے راتوں رات اپنے انجام کو نہیں پہنچے۔ تقریباً 122ممالک کورونا کے نام سے ایک وبا کے زیر اثر ہیں لیکن جس طرح کی غیر یقینی پاکستان میں ہے شاید ہی کسی اور ملک میں اس کی نظیر مل پائے۔ کورونا کی تشخیص، اسپتالوں میں سہولتوں کی عدم دستیابی، مختص فنڈز کی بندر بانٹ، اسپتالوں پر کورونا کے علاوہ دیگر مریضوں کا عدم اعتبار سمیت مختلف سوالات جس طرح پاکستان میں زبان زد عام ہیں کسی ملک میں بھی اس طرح کی بداعتمادی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی عوام بلاجواز پریشان اور از خود غیر یقینی کا شکار ہو گئے ہیں بلکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ہیں جو اس تمام صورتحال کی ذمہ دار بلکہ خالق ہیں۔ متاثرہ تمام ممالک نے اس مرض کی شدت کے تناظر میں لاک ڈائون سے متعلق فیصلے کیے، لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ایسے وقت لاک ڈائون کا تقریباً خاتمہ کر دیا جب کورونا میں شدت کی وجہ سے اس کی ضرورت اصولی طور پر پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔ اب اس فیصلے کو جہاں دنیا بھر میں عجیب و غریب کہا گیا وہاں پاکستان میں بھی وہ لوگ جو کورونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے، مزید لاپروا ہو گئے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں کورونا کے خلاف جنگ کا مذاق بن ہی جانا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ لاک ڈائون کا فیصلہ کرتے وقت جہاں ناتجربہ کار حکمرانوں کو یہ اندازہ نہ تھا کہ ملکی معیشت اور مختلف شعبوں کی زبوں حالی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی، وہاں جہاندیدہ حکمران طبقات نے اس موقع کو غنیمت جانا، جس کی وجہ سے مختص فنڈز کے خورد برد ہونے سے لیکر دکانداروں سے بھتہ طلب کرنے کی باتیں عام ہوئیں۔ یہ دونوں طرزِ عمل ہی دراصل کورونا کے خلاف جنگ کی ناکامی اور اس حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کا باعث بنے ہیں۔ گزشتہ روز جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ سندھ کے تمام اسپتالوں کاماہانہ بجٹ 120ارب روپے ہے لیکن کسی بھی سرکاری اسپتال میں کورونا وارڈ تک نہیں بنایا گیا، سندھ حکومت اس وقت 168وینٹی لیٹرز خریدنے جا رہی ہے لیکن اس کا بجٹ 3ارب روپے ہے جو اصل رقم سے دو گنا زیادہ ہے اور یہ کرپشن کی بدترین مثال ہے۔ اُنہوں نے کرپشن کی متعدد دیگر مثالیں بھی پیش کیں۔ اسی طرح کے الزامات خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومتوں پر بھی لگائے جا رہے ہیں۔ تلخ سچ یہ ہے کہ عام شہری سے لیکر اہم مقامات پر فائز اصحاب تک موجودہ حکمران طبقات پر کوئی اس لئے اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں کہ نہ تو ان کا ماضی بے داغ ہے اور نہ ہی حال کی کارکردگی کی بنا پر وہ اعتبار پانے کے اہل ہو سکےہیں۔

بدھ 3جون کو سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کے پیپلز پارٹی اراکین قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری نہ کرنے کے خلاف پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل اور دیگر کی درخواست کی فوری سماعت کی استدعا مسترد کر دی۔ جناب جسٹس عمر سیال نے ریمارکس میں کہا کہ اگر ان اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ مل بھی گیا تو اپنی جیبوں میں ڈال لیں گے، عوام اور ترقیاتی منصوبوں کی اراکین اسمبلی کو جتنی فکر ہے وہ ہمیں بھی معلوم ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف عوامی نمائندوں سے متعلق ایسا تاثر عام ہے تو دوسری طرف رہنمائوں کی لن ترانیاں ہیں کہ اُنہیں سنجیدہ ثابت کرنے ہی نہیں دے رہیں۔ تازہ مثال لیتے ہیں، ایٹمی دھماکے سے متعلق شیخ رشید نے کہا تھا کہ یہ ان کا کمال تھا، جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فرمایا کہ ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ ملتان میں میرے ماموں کے گھر ہوا تھا، گویا یہ ایٹمی نہیں بلکہ پٹاخوں کے دھماکے تھے!! احسان دانش نے کہا تھا۔

نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو

میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہو گا

خلاصہ یہ ہے کہ جس ملک کے حکمران طبقات کا یہ حال ہو تو اُس ملک کے باشندوں کا وہی حال ہوگا جیسا اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 10میں سے چار افراد کثیر جہتی غربت کا شکار ہیں، لاک ڈاؤن میں توسیع سے منفی خطرات کا سامنا کرنا ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ سلطنت روم کا شہنشاہ نیرو حادثاتی طور پر تخت نشیں ہوا تھا اور جب روم جل رہا تھا وہ بانسری بجا رہا تھا، وہ سفاک و بے حس تھا، تاہم مورخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ روم کی تباہی کے بعد اُس نے بے گھروں کیلئے اپنے محل کے دروازے کھول دیے تھے اور اپنے ذاتی خزانے سے روم کو آباد کیا تھا۔ خدا جانے پاکستانی حکمران طبقات سے متعلق کل کا مورخ کیا لکھے گا...!

تازہ ترین