عیدالفطر بھی گزر گئی، اتنی اُداس عید ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاک ڈاوٗن میں کتنا وقت گزر گیا، زندگی کا سفر بھی عجیب ہے، اوائل عمری میں لگتاہے کہ لمبی مسافت طے کرنی ہے، مگر جب زندگی سمجھ میں آنے لگتی ہے، تو وقت گزر چکا ہوتا ہے، سفر تمام ہونے کو ہوتاہے اور یُوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پلک جھپکتے ہی عمر بیت گئی۔
ابھی کل کی ہی بات لگتی ہے جب ہم اپنے بچپن میں سہیل رعنا کا بچوں کا موسیقی کا پروگرام سات سُروں کی دنیا میں شرکت کرنے جاتے تھے۔ ہمارے والد پروفیسر حامد علی ان دنوں پاکستان ٹیلی وژن پر حالات حاضرہ کے پروگرام کیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم اپنے والد کے ساتھ بچوں کے پروگرام میں شرکت کے لیے پی ٹی وی پہنچے تو پروڈیوسر عارف رانا کے کمرے میں ایک شخصیت کو دیکھا، ڈیڈی نے ان کاتعارف ہم سے کچھ یُوں کروایا کہ بیٹا! ان سے ملیے یہ ہیں اطہر شاہ خان جیدی! مشہور اداکار اور رائٹر، ہم نے دیکھا ایک نہایت نفیس اور شگفتہ مزاج صاحب جو سفید قمیص، ٹائی اور سیاہ پتلون،میں ملبوس تھے۔ ہم سے بہت خوش دلی سے ملے۔ بچپن کا یہ تعارف ہمیشہ کے لیے ہمارے ذہن و دل پر نقش ہوگیا۔ کچھ وقت گزرا اور پھر ہم نے ٹی وی ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔ ’’با ادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ ہمارے فنی کیریئر کے ابتدائی دور کا ڈراما سیریل تھا۔
حیدرامام رضوی اس کے ڈائریکٹر تھے، جب کہ تحریر اطہر شاہ خان کی تھی۔ اس ڈرامے میں بادشاہ سلامت کا یادگار کردار قاسم جلالی نے ادا کیا تھا۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس ڈرامے کی دُھوم مچی ہوئی ہے۔ قاسم جلیل جنہیں احباب ’’دادا‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ ان دنوں خود بھی ڈراما پروڈیوسر تھے، مگر اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے اس سیریل کے مرکزی کردار کے لیے ہامی بھری اور اتنی عمدہ اداکاری کی کہ سب عش عش کر اٹھے۔ ڈرامے کی کاسٹ میں عرش منیر، فہمید خان، شہزاد رضا، ملک انوکھا،آفتاب عالم، سبحانی با یونس، ہمایوں بن راتھر، یعقوب زکریہ ، ساجدہ سید، حنیف راجا ور دیگر بہت سے فن کار شامل تھے۔
اس ڈراما سیریل کے مصنف اطہر شاہ خان کو سب ’’جیدی‘‘ کے حوالے سے ہی جانتے ہیں ، لیکن ان کی سنجیدہ تحریر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بہت باصلاحیت اداکار اورڈراما نگار تھے، جو طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ سنجیدہ موضوعات پر بھی لکھ سکتے تھے۔ باادب با ملاحظہ ہوشیار، یُوں تو ایک طنز و مزاح سے بھرپور سیریل تھا، مگر اصل میں دیکھا جائے تو وہ ہمارے معاشرے کے بھیانک مسائل کو خُوب صورتی سے بیان کرنے کاایک منفرد انداز تھا۔ اطہر شاہ خان نے اس ڈرامے میں خود بھی ایک کردار ادا کیا، جوان کے روایتی جیدی کے کردار سے یکسر مختلف تھا۔
افسوس صدافسوس کہ ایسا عظیم شخص اب اس دُنیا میں نہیں رہا۔ اطہر شاہ خان طویل علالت کے بعد راہی ملک عدم ہوئے۔ دنیا ایک بہت بڑے فن کار، رائٹر اور شاعر سے محروم ہوگئی۔ اطہر شاہ خان کے ساتھ ہم نے بہت سےڈراموں میں کام کیا، جیدی سیریز کے بہت سے کھیلوں کے علاوہ ان کی تحریرکردہ ڈراما سیریلز میں بھی ہم نے کام کیا۔ ان کے چلے جانے کے بعد اب ہم سوچتے ہیں کہ کیسے خوش نصیب تھے ہم ،جو ایسے قدرآور لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہمیں ملا۔ ’’جیدی ان ٹربل‘‘ اطہر شاہ خان جیدی کی مشہور کامیڈی سیریز تھی، جس کی ہدایات حیدرامام رضوی نے دی تھیں۔ ڈرامے کی کاسٹ میں جیدی تو مرکزی کردار میں تھے، جب کہ دیگر فن کاروں میں ہمارے علاوہ مرحوم فرید خان بھی تھے۔
فرید خان اپنے وقت کے بہت اچھے کامیڈین تھے، جو کینسر کا شکار ہوئے۔انہیں منہ کا سرطان لاحق ہو گیاتھا، جس کےباعث وہ چند سال قبل انتقال کرگئے۔ ’’جیدی ان ٹربل‘‘ جب آن ایئر تھا، اس وقت ہم میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ ڈرامے کی یادیں اب بھی ہمارے ذہن میں ہیں۔ اطہر شاہ خان ’جیدی‘ کے روایتی کردار میں لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کیسے بھولا بھالا جیدی ایک منظر میں کولڈ ڈرنگ پینے والی نلکی سے سڑپ سڑپ کرکے چائے پیتا ہے پھر بسکٹ کی طرح کیلے کو چائے میں ڈبو کے کھانے کی کوشش کرتا ہے، ہم تو ریکارڈنگ کے دوران ہی ہنس ہنس کر دہرے ہوجاتے تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ احمقانہ حد تک بھولے جیدی کا کردار ادا کرنے والے اطہر شاہ خان خود بہت سنجیدہ طبیعت کےمالک تھے، جب وہ لطیف گفتگو کرتے تو بھی بہت شائستہ انداز اختیار کرتے تھے۔ انتہائی قابل، ذہین اور پڑھے لکھے انسان تھے، ہم نے ان کو بڑے بڑے دانش وروں کا تلفظ ٹھیک کراتے دیکھا ہے ،خاص طور پر انگریزی کا۔ اطہر شاہ خان کاایک مزاحیہ ڈراما سیرل تھا ’’رفتہ رفتہ‘‘۔ یہ اس دور کا ڈراما تھا ، جب خواتین کے لیے ٹیلی وژن پر سر پہ دوپٹہ لازمی رکھنے کی پابندی تھی۔ اطہر شاہ خان اس ڈرامے کے مصنف تھے، مگر خود انہوں نے اس میں کوئی کردار ادا نہیں کیاتھا۔ اس ڈرامے میں ہمارے علاوہ معین اختر، ہمایوں بن راتھر اور سبحانی با یونس نے کام کیاتھا۔
اطہر شاہ خان ریہرسل اور ریکارڈنگ کے دوران ہمیشہ سیٹ پر موجود ہوتے تھے۔ سفاری سوٹ میں ملبوس،سگریٹ پہ سگریٹ سلگاتے، شاہ صاحب سب کی رہنمائی کرتے تھے۔ اس کےعلاوہ اکثر وہ سیٹ پر فن کاروں کی تواضع بھی کرتے تھے۔ ہائے رے دنیا، رفتہ رفتہ کے رائٹر اطہر شاہ خان بھی چلے گئے، اس کے فن کار سبحانی بایونس اور معین اختر تو پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے۔ ہم گزری باتیں اور گزرے ہوئے لوگوں کو یاد کرکے اکثر افسردہ سے ہوجاتے ہیں۔ کیسے کیسے لعل و گوہرخاک میں جا ہوئے۔
ایک مرتبہ ہم ٹی وی ڈراما پروڈیوسر شاہد اقبال پاشا کے کمرے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اطہر شاہ خان بھی وہاں موجودتھے۔ یہاں ہم یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ دوست احباب کی محفل میں اطہر شاہ خان کا فی سنجیدہ رہتے تھے، کبھی ہم نے ان کی ہنسی ٹھٹہ کرتے نہیں دیکھا۔ وہ معلوماتی اور علمی گفتگو کرتے تھے، وہ ہمیں بتارہے تھے کہ اگر کبھی ٹینشن یا ذہنی دبائو ہو تو اس کاتدارک کیسے کرنا چاہیے۔
اتنے میں کمرے میں بشریٰ انصاری داخل ہوئیں۔ بشریٰ انصاری نے اپنے مخصوص شوخ و چنچل انداز میں انٹری دی اور اپنی شوخی سے محفل میں رنگ بھر دیے۔ بشریٰ انصاری کی باتیں دل چسپ تھیں اور اطہر شاہ خان نے بھی ان کی ہلکی پھلکی باتوں کا جواب انہی کے انداز میں دیا۔ جب تک بشریٰ کمرے میں رہیں محفل زعفران زار بنی رہی۔
کچھ ذکر اب ’’پرابلم ہائوس‘‘ کا ہوجائے۔ ’’پرابلم ہائوس‘‘ بھی اطہرشاہ خان کا مزاحیہ ڈراما سیریل تھا، جس میں ہمارے پلاسترزدہ بازو کے ساتھ ہم نے کام کیا۔ ہوا یوں کہ جن دنوں اس ڈرامے کی شوٹنگ ہورہی ،ہم اپنے کچن میں رکھے بڑے سے اسٹول پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے کہ اپناتوازن برقرار نہ رکھ سکے اور دھڑام سے زمیں بوس ہوگئے۔ اللہ نے کرم کیا سر پر چوٹ نہیں لگی۔ تاہم ہمارے بازو کی ہڈی میں معمولی فریکچر ہوگیا۔ ڈرامے کی ریکارڈنگ کے دوران ہماری یہی کوشش تھی کہ اسکرین پہ پلاستر چڑھا بازو نظر نہ آئے۔ پرابلم ہائوس کی کاسٹ میں ہمارے علاوہ غالب کمال، شہزاد رضا اور افضل خان بھی شامل تھے۔ افضل خان اچھے اداکار ہیں، نجانے آج کل کہاں ہیں۔ برسوں سے انہیں نہیں دیکھا۔
اطہر شاہ خان افضل خان کو کہا کرتے کہ تم اتنے وجیہ انسان ہو، نیلی آنکھیں، یہ رنگ روپ، اگر میرا ہوتا تو میں تو شوبزنس میں قیامت مچادیتا۔ جواب میں افضل خان بس دھیرے سے مسکرادیتے۔ ٹیلی وژن ڈراموں کی ریکارڈنگ وہ بڑے بڑے دیدہ زیب سیٹ، وہ باکمال فن کار، وہ بے مثال ہدایت کار اور لکھاری، اب سب کچھ ویسا نہ رہا۔ اطہر شاہ خان چلے گئے سب کو اُداس کرگئے۔ وہ بہت اچھے شاعر تھے اور مزاحیہ شاعری کیا کرتے تھے۔ جیدی تخلص تھا، ہم نے انہیں مشاعروں میں سُنا، بہت داد ملتی تھی انہیں۔
عرصہ دراز سے وہ بیمار تھے اور وہیل چیئرپر تھے۔ رمضان المبارک میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ رمضان میں ہمیں امجد صابری کی بہت یاد آتی ، وہ بھی رمضان میں ہی دنیا چھوڑ گئے تھے۔ اتنے برس بیت گئے، لیکن ان کی المناک موت کا دُکھ اب بھی ہم محسوس کرتے ہیں۔ موت برحق ہے سب کو جانا ہے،مگر امجد صابری کو جس طرح شہید کیا گیا کلیجہ منہ کو آتاہے۔
آخر میں دعائے صحت کی اپیل نامور فن کار سہیل اصغر کے لیے جن کی حال ہی میں سرجری ہوئی ہے اور ہمارے نوجوان گلوکار نعمان خان اور نامور گلوکار ابرارالحق کے لیے جو کورونا سے متاثر ہوگئے ہیں۔ نعمان خان کورونا کےباعث قرنطینہ میں ہیں اور جب ہماری ان سے فون پر بات ہوئی تو معلوم ہوا طبیعت کافی بہتر ہے۔ اللہ انہیں صحت دے اور سہیل اصغر کو بھی شفا کاملہ عطا کرے۔ سہیل اصغر بہت سینئر فن کار ہیں اور نیچرل اداکاری کرتے ہیں۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مستند فن کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ لاگ، رات، من چلے کا سودا، خواہش، پیاس اور چاند گرہن ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔ چاند گرہن میں انہوں نے شفیع محمد شاہ کے بیٹے کا کردار ادا کیا تھا، جو بہت پسند کیا گیا تھا۔