کراچی میں فلمی صنعت کے قیام کا خیال 1952ء میں سب سے پہلے یوسف ایچ ایچ کو آیا، جو پُونا بھارت سے کراچی ہجرت کرکے آئے تھے۔ انہیں پُونا میں پربھات اسٹوڈیو چلانے کا تجربہ تھا۔ 1953ء میں بھارت سے آئے ہوئے منور چاچا جنہیں، وہاں پروڈکشن کنٹرولر کا وسیع تجربہ تھا، انہوں نے ایک فلم تقسیم کار ایم۔اے بخاری کو گارڈن کے علاقے میں فیڈرل اسٹوڈیو قائم کرنے کے لیے رضامند کرلیا۔ ان ہی دنوں گارڈن کے علاقے میں چین نے ایک بین الاقوامی نمائش کا انعقاد کیا تھا، اس نمائش کے اختتام کے بعد ایک بڑے ہال نما اسٹال کو اسٹوڈیو بنا کر یہاں ’’بے کس‘‘ اور ’’جولیٹ‘‘ نامی دو فلموں کا آغاز کیا گیا۔
19؍اگست 1953ء کو اسی اسٹوڈیو میں ’’سدا سہاگن‘‘ کے نام سے ایک فلم شروع ہوئی، جسے لاہور میں فلمی صنعت کے بانی دیوان سرداری لال نے شروع کیا۔ بینا نامی ایک لڑکی جو اس وقت نیشنل بینک میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھیں، اسے ہیروئن لیا گیا۔ نئی ہیروئن نے فلم میں سرمایہ کاری بھی کی۔ شیخ حسن اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ دیوان سردری لال فلم کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور پھر کوئی رابطہ نہ کیا۔ فلم کے ہدایت کار شیخ حسن نے معروف بھارتی ہدایت کار محبوب خان کے بھائی محمد آر خان کو فلم میں سرمایہ کاری کے لیے رضامند کرلیا۔
اس اسٹوڈیو میں ’’انتخاب‘‘ اور ’’منڈی‘‘ نامی فلموں کا بھی آغاز ہوا۔ 1954ء میں کراچی کے معروف سماجی اور سیاسی خاندان کے چشم و چراغ سعید اے ہارون نے منگھو پیر سائٹ کے علاقے میں ایک جدید، وسیع فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جسے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کا نام دیا گیا۔ منور چاچا کو اس نئے اسٹوڈیو کا منتظم مقرر کیا گیا۔ کراچی اسٹوڈیو کی زیرتکمیل فلمیں اس نئے اسٹوڈیو میں منتقل ہوگئیں۔
’’سدا سہاگن‘‘ کو اس اسٹوڈیو میں سب سے پہلے مکمل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور اس فلم کا نام تبدیل کرکے ’’ہماری زبان‘‘ رکھ دیا گیا، جسے کراچی میں بننے والی پہلی فلم کا اعزاز حاصل ہوا، جس کی فلم ساز اداکارہ بینا تھیں، جنہوں نے کراچی میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھی اور یہاں بننے والی پہلی فلم کی پروڈیوسر کا اعزاز ایک خاتون کے حصے میں آیا۔ ہماری قومی زبان اردو اس فلم کا موضوع تھا۔
فلم کی کہانی بنیادی طور پر ’’تاریخ ادب‘‘ اور ’’آب حیات‘‘ نامی دو کتابوں سے ماخوذ تھی۔ معروف ٹی وی اور ریڈیو کی فن کارہ عرش منیر نے اس فلم میں صداکاری کی تھی۔ یہ ڈاکیومنٹری ٹائپ کی ایک بڑی موثر فلم تھی، جس کا دورانیہ ایک عام فیچر فلم سے کم تھا۔
سب سے اہم بات اس فلم کی یہ تھی کہ اردو ادب و زبان کی معتبر شخصیت بابائے اردو مولوی عبدالحق بھی بہ طور اداکار فلم کے کچھ مناظر میں نظر آئے۔ نامور شہرت یافتہ کلاسیکل فن کار سارنگی نواز خان استاد بندو خان نے پہلی اور آخری بار فلم بینوں کو پردئہ سیمیں پر اپنا چہرہ دکھایا۔ اپنے دور کی معروف اداکارہ رخسانہ نے پہلی بار اس فلم میں رشیدہ کے نام سے اداکاری کی۔ سندھ کے مقبول موسیقار غلام نبی عبداللطیف کی جوڑی بھی اس فلم سے متعارف ہوئی۔
1955ء میں ریلیز ہونے کے بعد یہ فلم دوبارہ کسی سنیما پر نہیں دیکھی گئی۔ اس اہم اور موضوعاتی فلم کو نہ ہی اب تک ٹی وی پر پیش کیا گیا۔ اب تو عرصہ دراز گزر چکا ہے، نجانے اس فلم کا کوئی پرنٹ محفوظ بھی ہے یا نہیں! میر انیس کے کلام کو عطا محمد قوال نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروا کر خود اپنے اوپر فلمایا، جس کے بول تھے!!
ہماری زبان اردو قومی زبان اردو
اونچا رہے گا ہر دم نام و نشان اردو
اس کے علاوہ آغا حشر کا دعائیہ کلام عطا محمد قوال کی ٹھمری، داغ کی غزل بھی اس فلم میں شامل تھیں۔ اس فلم کی نمائش بروز منگل 24؍مئی عیدالفطر 1955ء میں ناز سنیما کراچی میں ریلیز ہوئی\، دو ہفتے تین دن چلنے کے بعد یہ فلم پھر کبھی کہیں پر ریلیز نہ ہوئی۔ لاہور میں یہ فلم جون 1955ء میں ریجنٹ سنیما میں پیش کی گئی۔