• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم پاکستانی بھی بہت سادہ لوح قوم واقع ہوئے ہیں، جب بھی کسی گورے نے پاکستان آکر قومی لباس میں پاکستانی پرچم کے ساتھ تصویر بنوائی اور پاکستان کے بارے میں تعریفانہ جملے ادا کئے تو ہم اُسے پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرنے لگتے ہیں اور اس کیلئے آنکھیں بچھا دیتے ہیں۔ 

کچھ ایسا ہی امریکی شہری سنتھیارچی کے ساتھ ہوا جب 10سال قبل وہ پاکستان آئی تو اس نے شلوار قمیض میں ملبوس پشاور میں سائیکل چلاتے، کبھی نقش و نگار سے آراستہ ٹرک کے سامنے کھڑے ہوکر پاکستان کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کرکے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں تو پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے اس کے اس جذبے کو سراہا۔

 سنتھیارچی پاکستان کا امیج دنیا بھر میں مثبت انداز میں پیش کررہی ہے اور اس طرح سنتھیارچی پاکستان میں اپنا ایک ایسا امیج پیدا کرنے میں کامیاب رہی کہ ایک امریکی عورت پاکستان کو سپورٹ کررہی ہے اور پاکستان کا تشخص امریکہ میں اجاگر کررہی ہے۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے سنتھیارچی نے پاکستان میں ایک سلیبرٹی کی حیثیت اختیار کرلی اور اُس کی رسائی ایوانِ صدر، وزیراعظم، وزرا، سیاستدانوں اور بیورو کریٹس تک ہو گئی اور یہ افراد سنتھیا سے ملنے اور تصاویر بنوانے میں فخر محسوس کرنے لگے اور اسلام آباد کی کوئی بڑی پارٹی سنتھیا کے بغیر نامکمل تصور کی جانے لگی جہاں اسلام آباد اور راولپنڈی کی اہم شخصیات بھی مدعو ہوتی تھیں جبکہ سنتھیارچی حکومتی فنکشنز اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی مدعو کی جاتی تھی۔ 

سنتھیارچی کو مدعو کرنے والی شخصیات نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اس کا ماضی کیا ہے، کیا اس نے کبھی امریکہ میں پاکستان کو سپورٹ کرنے کیلئے کوئی کردار ادا کیا ہو اور کبھی ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا کہ کہیں اُسے کسی خاص مقصد کیلئے پاکستان تو نہیں بھیجا گیا۔

سنتھیارچی پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 2011میں پاکستان کے وزٹ پر آئی اور اسے پاکستان میں متعارف کرانے کا سہرا موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر، اعظم سواتی کو جاتا ہے جن کا ماضی میں امریکہ سے گہرا تعلق رہا ہے، جس کے بعد سے وہ تقریباً 10سال سے پاکستان میں مقیم ہے اور 2امریکی پاسپورٹس پر 52مرتبہ پاکستان اور امریکہ کا سفر کرچکی ہے۔ 

سنتھیارچی اسلام آباد کے پوش علاقے E-7 میں رہائش پذیر رہی جس کے پڑوس میں ایک وقت میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی رہائش پذیر تھے۔ سنتھیارچی کا گزر اوقات اور اخراجات کس طرح پورے ہوتے تھے۔

یہ ایک سوالیہ نشان ہے تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد جب پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات اپنے عروج پر تھے اور پاکستانی ایجنسیاں سیکورٹی معاملات پر بہت حساس تھیں، ایسے وقت میں سنتھیارچی نے پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھ کر اسلام آباد میں اپنی جگہ بنائی۔ 

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ امریکہ کی انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کی کوئی نئی چال تھی؟ دنیا میں اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں خوبصورت لڑکیوں کو انٹیلی جنس معلومات کیلئے استعمال کیا گیا ہو جس میں اسرائیل سرفہرست ہے۔

خود کو بلاگر، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور فلم میکر کہلانے والی امریکی شہری سنتھیارچی آج کل پاکستانی سوشل میڈیا پر تنازعات کی زد میں ہیں اور ان کے ٹویٹ اور وڈیوز کا ہدف پیپلزپارٹی اور اُس کی اعلیٰ قیادت ہے جس میں انہوں نے پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین پر دست درازی اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر جنسی زیادتی جیسے الزامات عائد کئے۔

تاہم یوسف رضا گیلانی، رحمٰن ملک اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سنتھیارچی کے اِن الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ پی پی قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنتھیارچی کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں اور ان الزامات کا مقصد پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کو بدنام کرنا ہے۔ 

بھارتی میڈیا بھی پاکستانی قیادت پر سنتھیارچی کے الزامات سے لطف اندوز ہورہا ہے اور اُنہیں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کرکے پاکستان اور پاکستانی سیاستدانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ 

حال ہی میں بھارتی اور خلیجی میڈیا نے سنتھیارچی کے قریبی ساتھی علی سلیم عرف ’’بیگم نوازش علی‘‘ سے منسوب یہ خبر شائع کی کہ سنتھیارچی نے بیگم نوازش علی کو ایک ملاقات میں یہ بتایا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی اُن میں دلچسپی رکھتے تھے اور دوستی کے خواہاں تھے۔

سنتھیا کے حالیہ انکشاف کے بعد پاکستان کا میڈیا اُسے ’’ہیروئن‘‘ بناکر پیش کررہا ہے اور واقعہ سے متعلق ذاتی نوعیت کے سوالات کرکے اپنی ریٹنگ میں اضافہ کررہا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وہ امریکی خاتون جس کے بارے میں یہ فخریہ کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کا امیج دنیا بھر میں مثبت انداز میں پیش کررہی ہے، آج وہی دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی سیاستدانوں کی بدنامی اور تضحیک کا سبب بن رہی ہے۔ 

سنتھیارچی کے الزامات میں کتنی حقیقت ہے، اِس کا فیصلہ سوشل میڈیا کے بجائے عدالت پر چھوڑا جائے تو بہتر ہوگا لیکن ان الزامات سے بڑھ کر یہ بات پریشان کن ہے کہ سنتھیارچی جو طویل عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہے، کی رسائی کس طرح ایوانِ صدر، وزیراعظم، وزراء اور اہم شخصیات تک ممکن ہوئی۔ 

سنتھیارچی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آج بھی اسے موجودہ حکومت کے وزرا اور اعلیٰ شخصیات تک رسائی حاصل ہے۔ یہ بات طے ہے کہ سنتھیا کے لگائے گئے الزامات کی نوعیت انتہائی سنگین ہے اور ان لوگوں پر لگائے گئے ہیں جو اہم عہدوں پر فائز تھے اور ملک کی نمائندگی کرتے تھے۔ 

دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ان تعلقات کی آڑ میں پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ تو نہیں کیا گیا؟

تازہ ترین