کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تشویشناک صورتحال نے نہ صرف عالمی معیشت کو ’’زبوں حالی‘‘ کا شکار کر رکھا ہے بلکہ وطن عزیز میں بھی زندگی کے ہر شعبہ کی کیفیت دگرگوں معیشت کی وجہ سے بے بسی اور بے کسی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یوس محسوس ہو رہا ہے کہ لاک ڈائون سے لے کر اب تک حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور حکومتی اقدامات پر عملدرآمد کے معاملہ پر بدانتظامی کے ہاتھوں مہنگائی اور بیروز گاری کے بڑھتے ہوئے ناقابل برداشت طوفان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نازک موقع پر حکومت اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جیسے معاملات کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل کا صدر مملکت کی طرف سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج پر ’’متنازعہ‘‘ بنائے جانے والے ایک رکن نے استعفیٰ بھی دے دیا ہے اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر کی طرف سے اس سلسلہ میں جاری کئے جانے ولے صدارتی حکم کو عدالت عالیہ میں چیلنج بھی کردیا گیا ہے۔
جبکہ اپوزیشن کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ وفاق اس میں زبردستی تبدیلی چاہتا ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ ایک صوبے سے ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے قومی اقتصادی کونسل اور مشترکہ مفادات کونسل جیسے اہم اداروں کو بھی ’’عضو معطل‘‘ بنا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ نئے نئے ادارے وجود میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے بعد اسلام آباد سے منتخب ہونے والے وفاقی وزیر کابینہ میں سب سے زیادہ طاقتور قرار دیے جا رہے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بعض وفاقی وزراء نجی محفلوں میں واشگاف طور پر اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے بجائے غیرمنتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کو زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔
اپوزیشن کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ مرکز صوبوں کو آئینی وفاقی اداروں کے ذریعے شراکت دار بنا کر ذمہ داریوں میں حصہ دار بنانے کی بجائے تمام اختیارات کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے لیکن اپنی مالی خرابیوں کا بوجھ صوبوں پہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں متحدہ طور پر اس حکومتی پلان کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل پر مبنی اے پی سی بلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ حکومت کے لئے بجٹ کا مرحلہ بھی ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہے کیونکہ کورونا وائرس کی موجودگی میں بہت سے منصوبوں اور تجاویز پر عملدرآمد نہیں کر سکتے بلکہ آنے والے دن ملکی معیشت کے لئے انتہائی مشکل ہوں گے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اعداد و شمار کے تناظر میں یہ تصویر کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوسرے سال بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 8.53فیصد ہو گئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے پر بیروزگاری کی شرح 5.8فیصد تھی موجودہ حکومتی کی وزارت منصوبہ بندی نے اگلے مالی سال کے دوران بیروزگاری کی شرح 9.6 فیصد تک جانے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کروڑوں ملازمین بھی معاشی بدحالی کا شکار ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کو بجٹ میں آئی ایم ایف کی طرف سے شدید دبائو اور سخت شرائط کا سامنا ہے۔ تاہم یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وفاقی بجٹ میں کورونا کے باعث متاثر ہونے والے کاروباری شعبوں کو محتاط ریلیف دینے کے معاملہ پر آئی ایم ایف نے آمادگی بھی ظاہر کی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ حکومت اپنی مالی مشکلات کے تناظر میں عوامی مشکلات کو کیسے مدنظر رکھتی ہے؟ صوبائی دارالحکومت بھی کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی صورتحال کے باوجود سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ شوگر مافیا کمیشن رپورٹ کے حوالے سے حکومتی وزراء اور ترجمان ’’شریف فیملی‘‘ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ اپوزیشن کی قیادت بھی ملوث حکومتی وزراء اور سبسڈی کے معاملہ پر وزیراعلیٰ پنجاب کو ‘‘ٹارگٹ‘‘ کئے ہوئے ہے۔
نیب کی طرف سے اپوزیشن لیڈر میاں شہبا زشریف کو گرفتار کرنے کے سلسلہ میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے کے واقعہ نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو ایک بار پھر متحرک کردیا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے بارے میں یہ جو ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کا تاثر دیا جا رہا تھا وہ انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے ایک دن میں ختم کردیا اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنوں کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے سے اس ’’مفروضے‘‘ کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی جو ایک عرصہ سے مسلم لیگ(ن) کو دو گروپوں میں تقسیم کئے ہوئے تھے۔
جارحانہ مزاج رکھنے والے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے ہمنوا چودھری احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ کے علاوہ خواجہ سعد رفیق بھی واشگاف طور پر میاں شہباز شریف کے ہمرکاب دکھائی دیتے ہیں۔ پارٹی کارکنوں نے عبوری ضمانت کی منظوری پر نہ صرف میاں شہباز شریف کے حق میں نعرے لگائے بلکہ جرأت اور استقامت سے جیل کاٹنے کےحوالے سے میاں حمزہ شہباز شریف کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ کیس کا فیصلہ کیا ہوتا ہے، لیکن میاں شہباز شریف نے اس واقعہ سے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی شعور کا تجربہ رکھتے ہیں۔ فرزند راولپنڈی کہلانے والے وفاقی وزیر وزیر شیخ رشید احمد ہر ہفتے آ کر جارحانہ انداز میں شریف فیملی کو تنقید کا نشان بناتے ہیں اور نیب کو ’’ٹارزن‘‘ بنا کر پیش کر کے حکومتی وزراء کو بھی ڈراتے ہیں۔ اس دفعہ سیاسی جدوجہد کی تاریخ رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی سیاست کے بارے میں کئی سوال کھڑے کردیئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی اس انتظامی یونٹ کے سربراہ ہوں گے۔ جبکہ دیگر محکموں کی نگرانی کے لئے سپیشل سیکرٹریوں کی فہرست کو چیف سیکرٹری کی مشاورت سے حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں پیپلز پارٹی پنجاب کی طرف سے بلائول ہائوس لاہور میں آل پارٹیزکانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا۔ جس میں این ایف سی ایوارڈ کے نوٹیفیکیشن کی واپسی اور بلدیاتی اداروں کی بحالی کا متفقہ طور پر مطالبہ کیا گیا۔ اپوزیشن کے رہنمائوں قمر الزمان کائرہ اور رانا ثناءاللہ نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ آٹا، چینی اور ادویات سکینڈل کے ملزمان کو پکڑا جائے اور مزدوروں،کسانوں اور کورونا کے دوران طبی عملہ کے مسائل کو بھی حل کیا جائے۔