بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عوام کو یہ خوشخبری سنا رہے ہیں کہ چین سے جو یورپی اور امریکی کمپنیاں نکل رہی ہیں، وہ بھارت میں اپنے اپنے پلانٹ لگائیں گی، مگر امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جو امریکی کمپنی چین سے نکلے گی وہ اپنی فیکٹری امریکہ ہی میں لگائے گی اور امریکی شہریوں کو ملازمتیں دے گی
امریکی صدر کا مطالبہ ہے کہ تمام امریکی اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی کمپنیاں اور کارخانے واپس امریکہ میں لاکر کاروبار کریں، جبکہ امریکی سرمایہ دار جانتا ہے کہ امریکی مزدور مہنگا ہے اور یہاں ٹیکس بھی پورا دینا ہوتا ہے جو سہولتیں اور آسانیاں چین نے غیر ملکی صنعتکاروں کو دی ہیں، وہ ان کے ملک میں انہیں کہاں نصیب ہیں۔
امریکہ میں الیکشن کا موسم بھی چل رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اب ایک نئی دھن ترتیب دی ہے کہ چین نے مجھے انتخابات میں ہرانے کیلئے کورونا پھیلایا ہے
باخبر امریکی حلقوں کا کہنا ہےامریکہ ہر صورت میں بھارت کو بحرہند اور ہند چینی میں اپنا دفاعی ساتھی تسلیم کرتا ہے مگر وہ بھارت کو عالمی طاقت نہیں بننے دے گا
مئی کے چوتھے ہفتے سے بیشتر یورپی ممالک میں وائرس میں کمی آئی ہے مثلاً برطانیہ میں حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں اب وہاں مختلف کاروبار کھولنے کے ساتھ اسکول کھولنے کے مسئلے پر بحث جاری ہے کہ آیا اسکول کھولے جائیں یا نہیں۔ وزارت تعلیم تذبذب کا شکار ہے۔ ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بچے اسکول آئیں گے ٹیچروں سے بھی ملیں گے اس طرح احتیاط ممکن نہیں۔ کیا معلوم کون بچہ وائرس لے کر آیا یا یہاں سے لے کر جائے گا۔ اس لئے ہر بچہ اور ٹیچر کا ٹیسٹ ضروری ہے۔ بس میں آنے جانے والے بچوں اور ڈرائیوروں کا بھی ٹیسٹ ضروری، ماسک ضروری اور سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھنا ہو گا۔ ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ میں اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے کھولنے کے بارے میں فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ اب طے یہ ہو رہا ہے کہ اسکول کھولیں گے اور بچوں کی نگرانی اور ٹیسٹ بھی کرنے جائیں گے۔ ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمانی اور مشیر رابرٹ ہافن کا خیال ہے کہ بچوں کو زیادہ دیر تک گھر پر بھی نہیں رکھا جا سکتا ہمیں یہ رسک لینا ہو گا۔
بچوں کی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر مسز کا کہنا ہے کہ ،عموماً بچوں میں بیماری سے مدافعت کی قوت ہوتی ہے، خاص طور پر وہ بیماریاں جو امیون نظام پر حملہ کرتی ہیں اگر بچے کا امیون سسٹم بہتر ہے تو وہ محفوظ رہتا ہے۔یورپی ملکوں میں کاروبار بھی بتدریج کھل رہے ہیں۔ بڑا مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ہے اس ضمن میں حکومت نئی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔یورپ کے بعض بڑے اداروں نے اپنے عملہ کے افراد کیلئے دفتروں ہی میں رہائش، کھانے پینے اور ہلکے پھلکے کھیل کھیلنے کا پلان تیار کر رہے ہیں تاکہ لاک ڈائون میں عملہ گھر پر رہنے کے بجائے دفتر ہی میں رہے اور کام بھی جاری رہے۔ بعض تجارتی اداروں نے آن لان سروس اور مال فروخت کرنے کے پروگرام تیار کر لئے ہیں۔ ان اداروں کا عملہ گھر بیٹھ کر کام کرے گا اور مرکزی آفس تمام کام کی نگرانی کرے گا۔ اس کے لئے پورا ڈیجیٹل سسٹم نصب کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے صرف وہی نوجوان کام کر سکیں گے جو ڈیجیٹل سسٹم پر کام کرنے کی تربیت اور تجربہ رکھتے ہیں۔ لاک ڈائون کی صورت میں بھی دفتری عملہ صبح نو تا پانچ بجے شام کام کرے گا۔بیشتر یورپی تعلیمی ادارے فاصلاتی نظام ورچوئل نظام جاری کر رہے ہیں۔ اُمید ہے یہ تعلیمی نظام زیادہ فروغ پائے گا۔مغرب میں اب سب سے زیادہ توجہ صحت عامہ کے شعبوں کو دی جا رہی ہے، حالانکہ پہلے ہی سے ان ملکوں میں صحت کے شعبے کیلئے بڑا بجٹ مختص کیا جاتا تھا، مگر اب کورونا کے بعد سب زیادہ حساس ہو گئے ہیں اور اس کو ملکی دفاعی ضروریات کے بعد دوسرا اہم شعبہ شمار کر رہے ہیں۔ بیشتر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تجربہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں اور جو تجربہ گاہیں کام کر رہی ہیں۔
ان میں نئے حساس آلات اور مزید ماہرین کو شامل کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی تبدیلی کی طرف مائل نظر آتی ہے۔ اونچی اونچی عمارتوں میں جن کمپنیوں کے آفس تھے وہ لاک ڈائون میں خالی پڑے ہیں۔ دفتری اسٹاف کی اکثریت اپنے گھروں میں کام کر رہی ہے۔ بڑے چھوٹے بینک بھی اسی طرح کام کر رہے ہیں۔ بڑے اداروں کے اعلیٰ افسران اپنی اپنی میٹنگز اپنے کمروں میں ویڈیو کام کے ذریعہ کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے مال اور شاپنگ سینٹر زبند ہیں، مگر انہوں نے بھی آن لائن بزنس کر دیا ہے۔ انہیں آرڈر مل رہے ہیں اور گھروں پر فراہمی کر دی جاتی ہے۔سڑکوں پر ٹریفک بہت کم ہو گیا ہے۔ تاہم بڑی کمپنیاں اور صنعتی ادارے ایسے انتظامات کر رہے ہیں کہ فیکٹری اور کمپنی کا عملہ اپنے کام کی جگہ ہی رہائش اختیار کر سکے اور کھانے پینے وغیرہ کا بندوبست بھی وہیں کر دیا جائے۔ اس طرح کی تبدیلیوں سے کمپنی کے مالکان اور بڑے اداروں کے کرتا دھرتا یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ اونچی اونچی کئی منزلہ عمارتوں میں دفاتر کی کیا ضرورت ہے۔
اس پر خرچ بہت آتا ہے۔ اس انداز فکر سے اب بڑی بڑی اور اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیرمیں بہت کمی آجائے گی۔ اس طرح تعمیرات کا شعبہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا جو ضرور ہو گا تو بڑے شہروں کا تصور بھی تبدریج ختم ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت نے یوں بھی دو دہائی قبل تمام ممالک کو خبردار کیا تھا کہ بلند و بالا عمارتوں اور بڑے شہروں سے ماحولیات پر منفی اثر پڑے گا اور آلودگی میں اضافہ ہو گا، ٹریفک زیادہ ہو گا۔ اس سے آمدورفت میں بھی مشکلات درپیش ہوں گی۔ لگتا ہے اب تبدیلی کی لہر میں یہ مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔گزشتہ دنوں برازیل میں جب کورونا کی وبا پھیلی تو برازیل کے صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کی طرح اس وائرس کومعمولی فلو قرار دے کر شہروں میں کام جاری رکھنے پر زور دیا۔ برازیل بڑا ملک ہے، شہر گنجان آباد ہیں۔ آبادی بھی زیادہ ہے، پسماندگی بھی زیادہ ہے لیکن برازیل میں لاک ڈائون نہیں ہوا اور آہستہ آہستہ کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہونے لگی۔
اب وہاں متاثرہ افراد کی تعداد دو لاکھ نوے ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ جبکہ بیس ہزار کے قریب اموات ہو چکی ہیں پورے ملک میں زبردست افراتفری مچی ہوئی ہے۔ برازیل کے صدر اور ان کا خوشامدی ٹولہ مسلسل ٹی وی پر آکر عوام کو جھوٹی تسلیاں دے رہا ہے اور کورونا وائرس کے حوالے سے ضروری اقدام سے ہچکچا رہا ہے۔اسپتال بھر چکے ہیں۔ دوائوں اور ضروری سامان کی شدید کمی ہے۔ مرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کا مسئلہ بھی تنازعہ بن رہا ہے کیونکہ عیسائی مذہب کو ماننے والے تابوت میں پورے اہتمام سے لاش کو رکھ کر دفناتے ہیں۔ اس صورت حال میں برازیل کے صدر کا صدر ٹرمپ سے زیادہ برا حال ہے۔ اگر وہ اپنےطبی ماہرین کا مشورہ مان لیتے اور آنی کانی نہ کرتے تو آج ان کے ملک کا جو حشر ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا۔
رہنمائوں کو زیادہ چوکنا ہونا اور عوام سے دو قدم آگے چلنا چاہئے۔ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جن جن ملکوں کے سربراہوں اور ان کے خوشامدیوں نے کورونا وائرس کا مذاق اُڑایا اور حفاظتی تدابیر کو اہمیت نہیں دی وہ بعد میں پچھتائے بہت۔سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال بھارت کی حکومت کو پیش آرہی ہے، خاص طور پر مہاراشٹر اور گجرات کے شہروں میں واقع کارخانوں کے ہزاروں مزدور جو اُتر پردیش، بہار اور اڑیسہ سے یہاں آکر نوکریاں کرتے تھے وہ اچانک لاک ڈائون میں پریشان ہو گئے۔ فیکٹریاں بند، کارخانے بند، مارکیٹیں اور دکانیں بند ، دکاندار ملازم سب بے چارے گھر کے نہ گھاٹ کے واپس اپنے گھر جانا چاہتے ہیں مگر ریلوے، بس سروس سب بند۔ اس کسمپرسی کی حالت میں وہ مزدورجن کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی تھے۔ پیدل اور سائیکلوں پر ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے نکل پڑے۔ بہت دیر بعد مہاراشٹر کی حکومت نے اُترپردیش کی بسیں چلوائیں اس پر ستم یہ کہ ان سے ڈبل کرایہ لیا گیا کہ پچیس مسافروں کے بجائے صرف بارہ مسافر بٹھائیں گے۔
اس لئے سماجی فاصلے کا معاوضہ بھی مسافر بھرے۔ اس افسوسناک صورتحال کی وجہ سے اب اُتر پردیش اور بہار کے مزدوروں نے دوبارہ کام پر واپس جانے سے منع کر دیا ہے۔ ان مصیبت زدہ لوگوں کا کہنا ہے روکھی سوکھی ہی سہی، رہیں گے اپنے گائوں میں۔ ایسے میں بڑے بڑے کارخانوں کو مزدوروں کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر، گجرات، احمد آباد کے ڈھائی ہزار کارخانے مزدوروں کی قلت کی وجہ سے تاحال بند ہیں۔ ایک طرف یہ حال ہے اور دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عوام کو یہ خوشخبری سنا رہے ہیں کہ وہ چین سے جو یورپی اور امریکی کمپنیاں نکل رہی ہیں وہ بھارت میں اپنے اپنے پلانٹ لگائیں گی۔ مگر امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جو امریکی کمپنی چین سے نکلے گی وہ اپنی فیکٹری امریکہ ہی میں لگائے گی اور امریکی شہریوں کو ملازمتیں دے گی۔امریکہ میں زندگی رفتہ رفتہ اپنی ڈگر پر آ رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ابتدائی غلطیوں کے بعد لاک ڈائون کرنے یا نہ کرنے کے تمام اختیارات ریاستوں کے گورنروں کے سپرد کر دیئے تھے۔ جس کی وجہ سے گورنروں نے اپنی اپنی ٹھانی اس سے کہیں لاک ڈائون اور کہیں لاک ڈائون نہیں ، اس سے مزید بدنظمی پھیلنی شروع ہوئی۔ کورونا وائرس نے دنیا کے آمروں کو یہ سکھا دیا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے حکومت مشکل ہے، آمریت قائم کرو ،پورے ملک میں ایک قانون نافذ کرو، چالاک کورونا کے اس سبق کو گرہ میں باندھ کر رکھیں۔امریکہ میں الیکشن کا موسم بھی چل رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اب ایک نئی دھن ترتیب دی ہے کہ چین نے مجھے انتخابات میں ہرانے کیلئے کورونا پھیلایا ہے۔ اعلیٰ امریکی عہدیدار اور اہم ممالک کے رہنما صدر ٹرمپ کی باتوں کو سنجیدہ نہیں مانتے ہیں۔ مگر اس بار معاملہ امریکہ اور یورپی ممالک کی معیشتوں کی بقاء کاہے۔
کڑوی سچائی یہ ہے کہ امریکہ بھی اس صورتحال میں دوسرے ممالک کی مدد کرنے سے قاصر نظر آتا ہے، کیونکہ امریکہ میں اس وقت عوام بہت غصے اور اشتعال میں ہیں۔ لاک ڈائون سے انہیں اب نفرت ہونے لگی ہے۔ وہ اپنے روزگار کے لئے پریشان ہیں امریکہ میں اس وقت ساڑھے تین کروڑ افراد بالکل بے روزگار ہیں جبکہ پانچ کروڑ افراد روزانہ کی اجرت پر کام کرتے تھے یا ٹھیلہ لگاتے تھے یہ تمام لوگ بے قابو ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ حواس باختہ دوسروں کو ڈانٹ پھٹکارکر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ مسائل اور مصائب بڑھ رہے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات قریب آرہے ہیں۔
ڈیموکریٹک رہنما اور کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی صدر ٹرمپ کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھاتی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ پہلی بار اس قدر بدحواس دکھائی دیتی ہے کہ عوام کے احتجاج کو کیسے روکے۔اس صورتحال میں خارجہ پالیسی اور دیگر غیر ملکی معاملات کو کیسے حل کرے۔ اس کے علاوہ منہ زور صدر ٹرمپ کی باگیں کس طرح کس کے رکھے۔ حال ہی میں امریکہ میں ایک بڑے فلمی ادارے کی ایوارڈ کی تقریب تھی جس میں ہر فنکار کو چھ فٹ دور کھڑا کیا ۔تمام مہمانوں کو دو دو سیٹ چھوڑ کر بٹھایا گیا ۔ ایوارڈ یافتہ فنکار صرف ایوارڈ لے رہے تھے اور شکریہ ادا کر کے جا رہے تھے۔ ایک فلم پروڈیوسر کا کہنا تھا آدھا درجن فلمیںتیار رکھی ہوئی ہیں، مگر ہم انہیں ان حالات میں ریلیز نہیں کر سکتے۔
امریکی صدر کا اب مطالبہ ہے کہ تمام امریکی اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی کمپنیاں اور کارخانے واپس امریکہ میں لاکر کاروبار کریں جبکہ امریکی سرمایہ دار جانتا ہے کہ امریکی مزدور مہنگا ہے اور یہاں ٹیکس بھی پورا دینا ہوتا ہے جو سہولتیں اور آسانیاں چین نے غیر ملکی صنعتکاروں کو دی ہیں، وہ ان کے ملکوں میں انہیں کہا ںنصیب ہیں۔ امریکی حکومت پریشان ہے کہ لوگوں کو روزگار کہاں سے دے۔ واقعہ یہ ہے کہ نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد دنیا یونی پولر ہو گئی اور دنیا کے تمام صنعتی ممالک اور سرمایہ کار اداروں نے اپنی ایک تنظیم بنا کرکہا ، ہم دُنیا کی صنعتی تجارتی اور سرمایہ کاری کو اپنے طور پر اپنے ڈھنگ سے چلائیں گے جس میں تاحال ایک سو چونسٹھ ممالک اراکین شامل ہیں، اس میں کمیونسٹ روس کے ختم ہونے کے بعد گلوبل اکنامی، آزاد اکنامی اور عالمگیریت کے نعروں کو عام کیا گیا تاکہ اجارہ دار، سرمایہ دار دنیا کی منڈیوں اور غریب ممالک کے قدرتی وسائل کو پوری طرح اپنے منافع کے لئے استعمال کریں۔ اس حوالے سے غریب اور ترقی یافتہ ممالک کو بڑے بڑے قرضے دیئے گئے ان ترقی پذیر ممالک کی افسر شاہی کو نوازا بھی جاتا رہا۔
اربوں ڈالر کے قرضوں کے باوجود عوام کو ڈیم میسر نہیں پینے کا پانی میسر نہیں اناج اُگانے کے باوجود روٹی نصیب نہیں صنعتی ترقی کے نام پر قرضے اور سود عوام ادا کریں، کارخانے نہیں روزگار نہیں۔ ہرچیز باہر سے منگوائی جا رہی ہے یہ درحقیقت بڑا کھیل تھا جواب زورو شور سے جاری ہے۔ اس کھیل کے بڑے کھلاڑی عالمی بینک، آئی ایم ایف ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر بڑے نجی بینک اور سرمایہ کاری کرنے والے ادارے ہیں۔ یہ کھیل امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش، جارج بش اور ہنری کلنٹن نے شروع کیا تھا جس میں جنوبی امریکہ کے بڑے سرمایہ دار اور سنڈیکیٹ شریک تھے، مگر اس کھیل میں نیا موڑ اس وقت آیا جب چین کو ڈبلیو ٹی او کا رکن بنایاگیا۔ اس نے بڑے ساہوکاروں کو صلاح دی کہ اپنے کارخانے اور ٹیکنالوجی یہاں لے آئو ،چین ارزاں لیبر، ارزاں بجلی فراہم کرے گا۔ اسے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے منظور کر لیا اور راتوں رات بڑے بڑے صنعتی کارخانے، تجارتی ادارے اور بڑے سرمایہ کار ادارے جن کا کلب وال اسٹریٹ ہے وہ سب شاطر دماغ شنگھائی میں جمع ہو گئے اور چین کے تجارت کی دُنیا میں معجزہ دکھانے شروع کئے۔
چین کے غریب محنت کش دنیا کے دولت مندوں کو مزید دولت مند بنا رہے ہیں باقی سرمایہ کار ان کے قانونی مشیر، سیکرٹریز سب اپنی جیبیں بھر رہے ہیں جہاں اپنا کام نکالنا ہوتا ہے وہاں رشوت کمیشن سے اپنا کام نکالتے ہیں۔ آف شور کمپنیاں اور جعلی اکائونٹ اسی رقم سے وجود میں آتے ہیں۔ دراصل سرمایہ داری اور تجارت میں ہمیشہ رشوت کی لین رہی ہے۔ شاہوں نوابین کے دور میں تحفے تحائف کے لین دین ہوتے تھے۔جدید سرمایہ دارانہ نظام کرپشن کی جڑ ہے اولین سود، رشوت، کمیشن اور اختیارات کی خرید و فروخت اس کے لازمی جز ہیں۔ رشوت اور بدعنوانی کچھ نیا نہیں صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ صرف زمانے کے ساتھ رنگ ڈھنگ بدل گئے۔ مادہ پرستی ہر دور کا خاصہ رہی ہے۔
فرق یہ ہے اب کاروبار بڑے، آبادی بڑی تزئین و آرائش کے سامان سب انسان اس کی طرف بھاگتا ہے تو پیسہ بھی حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں ایسے شوقین لوگوں کا دائرہ محدود، اب یہ دائرہ بڑا ہو گیا ہے۔ اب 2020 کے بعد کی زندگی میں یہ سب کچھ ایسا نہیں رہے گا جیسا چل رہا تھا۔ نام و نمود و نمائش تشہیر بہت کچھ بدل جائے گا۔ تمام دُنیا کو سب سے پہلے معیشت کو سدھارنے پر پوری توجہ دینا ہو گی۔ اپنے اپنے ممالک میں کرپشن اور بدعنوانیوں کو روکنا ہو گا۔ مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہو گا۔اس کے علاوہ دنیا نے اب یہ جان لیا ہے کہ ہماری زندگیاں پہلے جیسی نہیں رہیں گی، تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین ماحولیات اور بائیولوجیکل سائنس دانوں نے بھی خبردار کر دیا ہے کہ اس وقت دنیامیں تریسٹھ ملین وائرس ہیں۔ کب کون سا وائرس حملہ آور ہو گا۔ اور وہ کیا ہو گا معلوم نہیں جیسے کورونا وائرس پھیلا ہے۔ اس لئے ہر ملک کی قومی ترجیحات میں اولین ترجیح صحت عامہ کے شعبے کو دی جائے گی۔ صحت عامہ، ڈاکٹرز، فارماسسٹ، نرسیں، پیرا میڈیکل عملہ یہ قوم کی صحت کے محافظ ہیں۔
دُنیا نے دیکھا کہ اس شعبہ کی اہمیت امریکہ میں ہمیشہ نمایاں رہی مگر وقت آنے پر معلوم ہوا کہ یہ بھی آفت کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ شعبہ صحت پر امریکہ ہر سال فی شہری دس ہزار سات سو پچاس ڈالر مختص کرتا ہے یہ بہت بڑا بجٹ ہے پاکستان کے قومی بجٹ سے چارگنا زیادہ مگر بدانتظامی، ہڑبونگ اور زیادہ پر اعتماد ہونے کی وجہ سے امریکہ میں کورونا زیادہ پھیلتا چلا گیا اور سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ امریکی انفرادی طور پر بھی صحت کے حوالے سے باشعور لوگ ہیں اور اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ اس طرح یورپ میں ہوا۔ اگرچہ پاکستان میں خدا کا شکر ہے کہ اموات کم ہوئی ہیں۔ مگر اس میں بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز اور ماہرین طب تعداد زیادہ بتا رہے ہیں جب کہ سرکاری اعدادوشمار کچھ اور ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ کورونا سے بچائو کے لئے جو احتیاطی تدابیر ضروری تھیں اور ہیں ہم نے ان کا بالکل پاس نہیں کیا اس لئے ماہرین طب پریشان ہیں کہ یہ مسلسل بے احتیاطی کہیں کہیں رنگ ضرور دکھائے گی اور بڑے نقصان کا خدشہ ہے۔ اب یہ اہم بات ہے کہ ایک فرد ہمارے قریب کھڑا بات کر رہا ہے، وہ بھی سانس لے رہا ہے اور مخاطب بھی سانس لے رہا ہے۔ایک دوسرے کی سانس سے جراثیم دوسرے میں منتقل ہو رہے ہیں اگر کوئی وائرل بیماری ہو تو وہ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ماہرین اس نکتہ پر بھی غور کر رہے ہیں کہ اگر کورونا کی طرح کوئی اور وبائی بیماری ہوا میں داخل ہو جائے اور اس میں ازخود نمو کی قوت ہو تو ہر سانس لینے والا اس کا شکار ہو سکتا ہے۔
کورونا وائرس جس طرح پھیلا ہے یہ ایک طویل عرصے تک انسانوں کے بیچ اس دنیا میں رہے گا۔ اس کا خدشہ زیادہ تر ماہرین اور سائنس دان کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ویکسین جلد تیار ہو جائے اور مؤثر ثابت ہو، تب ہی اس وباء سے چھٹکارا ممکن ہے۔ ورنہ تبدیلیاں کرتے رہنا ہوں گی۔ماہرین سماجیات کہتے ہیں انسان ایک سماجی جانور ہے۔ اس تشریح کے مطابق تو انسان اور سماج میں بتدریج دوری ہو جائے گی کیونکہ سماجی فاصلہ، مصافحہ نہ کرنا، گلے نہ ملنا، قریب ہو کر گفتگو نہ کرنا، تقریبات منعقد نہ کرنا، تہواروں پر روایتی میلے ٹھیلے بھی منسوخ کرنا۔ اب دُنیا کو کیمیاوی اور بائیوکیمیکل ہتھیاروں سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ امریکہ میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ جن امریکی شہریوں کے پاس پاسپورٹ ہیں وہ ان حالات میں قابل سفر ہیں یانہیں ہیں۔ اس میں دُنیا کے دوسرے ملکوں میں بات ہو رہی کہ پاسپورٹ اب نیا ڈیزائن کیا جانا چاہئے جس میں فرد کی صحت کے حوالے سے مختصر اور اہم معلومات درج ہونا چاہئے۔ کچھ ٹیسٹ کرانے ہوں گے اور ان کے سرٹیفکیٹ سفری دستاویزات کے ساتھ پیش کرنا ہوں گے۔
پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کی تیاری یہ ایک نیا جنجال ہے۔ اس طرح سیاحت کا شعبہ خاص طور پر متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ ہی میں ایک بہت بڑا شعبہ جس کی بلیئنز ڈالر کی آمدنی ہے اور ہزاروں لوگ اس شعبے میں روزی کماتے ہیں وہ ہے کھیلوں کا شعبہ ہے۔ دنیا میں امریکہ سے بڑا کھیلوں کا شعبہ کہیں اور نہیں ،کھیل سب جگہ ہیں، مگر امریکہ میں حیران کن حد تک کھیلوں نے ترقی کی ہے اور ان کی منظم تنظیمیں اور سنڈیکیٹ ہیں۔ معروف کھلاڑیوں کو ملین ڈالرز میں معاوضہ ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ باسکٹ بال، امریکی فٹ بال، رگبی ٹینس، کارریسنگ، ریسلنگ، باکسنگ، ٹینس، پیراکی، موسیقی کے کنسرٹ، ڈرامے، کلاسک موسیقی کنسرٹ وغیرہ، ان تمام کھیلوں میں روزانہ بلاشبہ لاکھوں لاکھوں لوگ ٹکٹ خرید کر کھیل دیکھتے ہیں۔ پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ایک اور بڑا گیم ہے بلکہ اس گیم کی لاس ویگاس سے نیوواورنس تک چین پھیلی ہوئی ہے۔ یہ جوا خانے ہیں، اس میں لاکھوں افراد کا روزگار چلتا ہے۔ ہر رات امریکہ میں کتنا بڑا جوا کھیلا جاتا ہے اس کا حساب مشکل ہے صرف ایک بڑے جوئے خانہ میں پچاس سے ستر ملین ڈالر کا جوا ہوتا ہے جو عام ہے اس طرح ہزاروں شبینہ کلب امریکہ میں پھیلے ہوئے ہیں یہاں بھی ملین آف ڈانسز کا کاروبار ہوتا ہے۔
شراب خانے، ان کا شمار نہیں چھوٹے بڑے ہر شہر اور کائونٹی میں ہیں۔ ان میں بھی ہزاروں افراد کام کرتے ہیں اور ان کاروزگار ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو امریکہ میں کھیلوں کی صنعت، جوئے خانوں کی صنعت، شراب خانوں کی صنعت، موسیقی کے کنسرٹ کی صنعت، سینما کی صنعت، دیگر تفریح گاہیں شبینہ کلبوں کی صنعت ان سب پر دھند چھا گئی ہے۔ لاکھوں افراد ہر شعبہ یا صنعت سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ صنعتی ادارے، تجارتی ادارے، کھیلوں کے شعبے اور دیگر تفریحات کے ذرائع بند ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں کورونا سے بھی سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی گردن اس قینچی میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایک دھار ملکی حالات اور دوسری دھار آنے والے صدارتی انتخابات ہیں۔ اس میں بھی انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ بہرحال یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کے مخالفین نے انہیں انتخابات میں ہرانے کے لئے امریکہ میں یہ مہلک وائرس پھیلایا ہے۔ اس ضمن میں وہ چین اور عالمی ادارہ صحت کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ انتخابی مہم میں یوں تو معیشت کامسئلہ اولین رہے گا۔ دوسرے بے روزگاری کا مسئلہ بھی اس کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔ مگر کورونا اور چین سے معاملے میں کشیدگی بھی ایک اہم ایشو بن کر سامنے آئے گا۔ جس سے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کو کچھ فریش آکسیجن میسر آسکتی ہے۔دوسری طرف جیوے بیڈن صدارتی امیدوار ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی بھی پریشان ہے کہ ان اندرونی اور بیرونی حالات میں اگر بیڈن صدر بن گئے تو معاملات کو کیسے چلا سکیں گے۔ جیوے بیڈن سیاستدان بہت اچھے ہیں تجربہ کار ہیں، نرم گو اور کم گو ہیں مگر اس وقت عوام شدید غصے میں ہیں۔
امریکی اپنی ملازمتیں کھو جانے، کاروبار بند ہو جانے اور ملک میں مہنگائی بڑھ جانے سےوہ غم و غصہ میں ہیں۔ اس کیلئے وہ صدر ٹرمپ اور چین دنوں کو قصور وار قرار دیتے ہیں جبکہ سی آئی اے اور پینٹاگون کہتے ہیں ہمارے پاس چین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ چین نے ہر اس ملک کے خلاف جس نے چین کو ذمہ دار قرار دیا ہے اس سے ثبوت طلب کیا اور کسی ملک کے پاس یا خفیہ ایجنسی کے پاس چین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ چین اپنے روزمرہ معمولات میں کام کر رہا ہے۔صدر ٹرمپ نےجن امریکی کمپنیوں کو چین سے نکل جانے کا کہا تھا اس میں بڑی اور درمیانی چینی کمپنیاں ہیں جن کو چین سے نکلنے کے بعد بھارت بانہیں پھیلائے کھڑا تھا کہ یہ کمپنیاں بھارت میں کام کریں مگر عجیب اور دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کمپنیوں کو بھارت میں اپنے کارخانے کھولنے کے بجائے انڈونیشیا میں ان 36 کمپنیوں کو اپنا نیا سیٹ اَپ بنانے کو کہا ہے۔ اس پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہکا بکا رہ گئے۔
وہ پریشان ہیں کہ امریکی صدرنے انہیں آسرا دے رکھا تھا مگر وہ چینی کارخانے بھارت کی بجائے انڈونیشیا بعد میں تھائی لینڈ اور ویت نام وغیرہ میں منتقل کرنا چاہتے اس معاملہ میں امریکہ نے بھارت کو اپنی فہرست میں نہیں رکھا ہے۔اس حوالے سے امریکہ کے تھنک ٹینک حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا ایک غلطی کر بیٹھی کہ اپنے کارخانے، ٹیکنالوجی اور سرمایہ چین میں لگایا اور اب چین ان سب کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ جس طرح چین میں افرادی قوت اور ماہر کاریگر اور انجینئر دستیاب تھے، اب بھارت میں بھی وہی صورتحال ہے اور بھارت کی معیشت بھی زراعت اور سروسز پر زیادہ انحصار کرتی رہی۔
اس کو یہ موقع مل گیا تو وہ صنعتی میدان میں امریکہ اور چین کو آنکھیں دکھا سکتا ہے۔ باخبر امریکی حلقوں کا کہنا ہےامریکہ ہر صورت میں بھارت کو بحرہند اور ہند چینی میں اپنا دفاعی ساتھی تسلیم کرتا ہے مگر وہ بھارت کو عالمی طاقت نہیں بننے دے گا۔ اس لئے گزشتہ برسوں بھارت کی چاند گاڑی چاند پر اُترتے اُترتے رہ گئی کیونکہ چاند سے دو کلو میٹر دور اس کی خلائی رابطے کی ڈور کاٹ دی گئی تھی۔ اس پر بھارت امریکہ کو الزام دینے سے رہا، سپر پاور واقعی سپر پاور ہوتی ہے۔ وہ کسی کی دوستی، اخلاقیات، رشتے تعلقات کو خاطر میں نہیں لاتی اس کا کھیل صرف مفادات سے جڑا ہوتا ہے۔
جاری عالمی صورت حال میں دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بائی پولر رہےگی، ملٹی پولر ہو جائے گی۔ اس طرح طاقت کے مراکز تبدیل ہوتے محسوس ہو رہےہیں۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کا ٹریک تبدیل کر دیا ہے۔ عجیب تماشہ ہونے جا رہا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا حامی امریکہ اور اس کے سامنے چینی سوشلزم کا سب سے بڑا داعی چین، تجارت کی جنگ کچھ عرصہ بعد نظریات کی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ تبدیلی بہرحال ناگزیر ہے۔