• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عندلیب زہرا، راول پنڈی

رات کی تاریکی چَھٹ رہی تھی۔نیلا پیرہن پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رہاتھا۔لرزتے کانپتے دعائیہ لب،طویل سجدے، نم آنکھیں… آئی سی یو کا دروازہ کُھلا،تو میری آنکھیں بس ڈاکٹرز کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ان میں کیا ہے،’’زندگی کی نوید یا …‘‘کیا دُعائیں مستجاب ہوچُکی تھیں؟کیا تاریک رات بِیت چُکی تھی…؟

ہمارے خاندان میں لڑکیاں کم ہی تھیں۔ہم بھی بس دو بھائی تھے، بہن کوئی نہ تھی۔والد صاحب اکلوتے تھے اور والدہ بھی… ہماری والدہ کو بیٹی کی بڑی آرزو تھی۔وہ اکثر کہتیں’’بیٹیاں بہت اچھی ہوتی ہیں، ہم درد، نرم دل، مہربان، چھائوں جیسی۔مائوں کی ہم راز،دُکھ سُکھ کی سہیلی۔ ’’آپ مجھے اپنی بیٹی سمجھ لیا کریں۔‘‘ مَیں بڑےلاڈ سے ان کی گود میں سررکھ کر کہتا۔اتفاق کی بات تھی کہ جب ہم بھائیوں کی شادیاں ہوئیں، توہمیں بھی اللہ نے بیٹوں ہی سے نوازا۔لوگوں کے گھروں میں بیٹوں کے لیے دُعائیں کی جاتی، منّتیں مانی جاتی ہیں اور ہم بیٹیوں کے لیے دُعائیں کرتےتھے۔

میرے چار بیٹے تھے، پہلے بیٹے کی پیدائش کےوقت ہی سے ہم بیٹی کی آمد کے منتظر تھے ۔ بالآخر چار بیٹوں کے بعد اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نواز ہی دیا اور ایک پھول سی نازک بچّی نے ہمارے گھر جنم لیا۔ ہم سب بہت خوش تھے، ننّھی پری کا ناک چڑھانا ، منہ بسورنابھی ہمیں بھلا لگتا۔ ’’بس امّاں، آپ کی سہیلی،ہم راز آخرآہی گئی ۔‘‘مَیں نے اپنی بچّی کو اپنی ماں کی گود میں ڈالتے ہوئے کہااور بچّی کا نام اُجالارکھا۔اُجالا، ہمارے گھر کا نور، رونق تھی، سب کی لاڈلی۔ ہم نے اپنی بیٹی کو شہزادیوں کی طرح پالا تھا، اس کی ہر بات پر عمل گویا سب کا فرض تھا۔ اس کا پہلا قدم، پہلی بات،آنسو، ہنسی میری یادداشت میں محفوظ تھے۔’’مَیں بیٹیوں کا روایتی باپ نہیں بنوں گا۔‘‘ اُجالا کی پیدائش کے دن ہی مَیں نے اپنی ماں سے کہاتھا۔ 

ہم نےاُجالا پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی ۔ اُسے پڑھنے کا شوق تھا، ہمارا روایتی گھرانہ تھا، سو سب معترض تھے۔’’لڑکی ذات ہے۔‘‘ میری بیوی ہمیشہ دبے الفاظ میں کہتی۔’’میری اُجالا ہمیشہ میرا سر اونچا رکھے گی۔‘‘مَیں فخریہ کہتا۔اُجالا ہمیشہ میری اُمیدوں پر پوری اتری ۔ اتنے لاڈ پیار نے بھی اسے بگاڑا نہیں تھا، بہت سُلجھی ہوئی، سمجھ دار بچّی تھی۔ میری کُل کائنات ۔وقت گزرتا گیا اور میری ننّھی پَری بڑی ہوگئی۔

اُس دن گھر میں خُوب چہل پہل تھی۔ہمارے بڑے بیٹے اور اُجالے کے لاڈلے بھیّا کی منگنی تھی۔مگر اُس دن یو نی وَرسٹی میں اُجالا کا ضروری ٹیسٹ تھا،سو اسے جانا پڑا،ویسے بھی رسم تو شام میں تھی، لیکن شہر میںاچانک ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ بریکنگ نیوز دیکھتے ہی ہم سب گھر سے نکل گئے۔حالات اس قدر خراب تھے کہ ہم یو نی وَرسٹی نہ پہنچ سکے۔ دن سے شام اور شام سے رات ہوگئی، لوگوں نے بھی طرح طرح کی باتیں بنانی شروع کر دیں۔وہ رات کیسے کٹی، یہ ہم جانتے ہیںیا ہمارا اللہ۔مَیں ہنگاموں کے با وجود دیوانہ وار اپنی بچّی کو ڈھونڈتارہا تھا۔ البتہ، بیٹوں کو گھر بھیج دیا تھا کہ وہاں مہمان بھی تھے اور خراب حالات میں لڑکوں کا یوں گھر سے باہر رہنا محفوظ بھی نہ تھا۔ صبح کے نیم تاریک اُجالے میں ہماری اُجالا واپس آگئی… زرد چہرہ،بکھرے حواس … پہلے تو سب نے اُسے دیکھتے ہی گلے لگا لیا، لیکن جب اُس کی پُشت پر کھڑے نوجوان لڑکے کو دیکھا، تو بھائیوں کا پیار، گھر والوں کا دُلار، غصّے میں بدل گیا۔ ایسے میں ایک کم پڑھی لکھی ماں کی ممتا نے بھی اپنے دل کی نہیں ،لوگوں کی سُنی ۔’’کہاں تھیں تم؟ 

کس کے ساتھ آئی ہو؟‘‘ میرے بڑے بیٹے ، اُجالا کے پیارے بھّیا کی آواز میں اجنبیت تھی، وہ بھائی جو اُس پر جان نچھاور کرتے تھے، انہوں نے اپنی بہن پر شک میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا۔ کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ ، آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیےسب کی لاڈلی نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی،’’ وہ …وہ، بھیّا … ہڑتال… سارےراستےبند تھے… نیٹ وَرک نہیںتھا … ہڑبڑاہٹ میں موبائل کھو…‘‘ ’’بس ، کوئی جھوٹ نہیں سنوں گامَیں…سچ سچ بتاؤ، تم کہاں اور کس کے ساتھ تھی؟‘‘میرے بڑے بیٹے نے بہن کی بات مکمل سُننے سے قبل ہی گویا فیصلہ صادر فرمادیا۔ ’’دیکھ لیں ماما، یہ سب آپ کے اور پاپا کے لا ڈ پیار کا نتیجہ ہے۔‘‘ ’’یہ کیا ہو رہا ہے…؟؟‘‘ مجھے جیسے ہی چھوٹے بیٹے کا فون آیا، مَیں اُلٹے پیر گھر واپس لوٹا، مگر شاید ایک باپ کو آنے میں دیر ہو گئی تھی کہ اُ س کی لاڈلی اپنے ہی گھر آنگن میں، اپنوں کی لگائی عدالت کے کٹہرے میں کھڑی تھی۔ ’’ دیکھ لیجیے، اپنی لاڈلی کا کار نامہ ۔ 

مَیں تو پہلے ہی اس کی تعلیم کے خلاف تھی، کہتی بھی تھی کہ بیٹی کو اتنا سَر مت چڑھائیں۔ پر آپ نے میری ایک نہ سُنی، آج اس نے ہمیں سب کے سامنے بے عزّت کروادیا۔ ‘‘ میری بیوی نے آنسو پونچھتے ہوئے شکوہ کیا۔ ’’خبر دار جو کسی نے میری بچّی ،میری اُجالا کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ، مجھے اپنی تربیت اور اپنی بٹیا پر پورا بھروسا ہے، وہ کبھی میر اسرجُھکنے نہیں دے گی اور تمہاری ہمّت کیسے ہوئی اپنی بہن سے اس لہجے میں بات کرنے کی؟‘‘ مَیں نے بیوی اور بیٹوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ، تو اُجالا جو بُت بنی کھڑی تھی ، بھاگ کےمجھ سے ایسی لپٹ گئی، جیسے چھوٹی سی بچّی۔ ’’پاپا! مَیںنے کچھ غلط نہیں کیا، میرا بھروسا…‘‘ وہ اپنی بات مکمل کرنے سے قبل ہی میری بانہوں میںبے ہوش ہوگئی۔ اسپتال جانے پر پتا چلا کہ اسے نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا۔ وہ بچّی ، جسے مَیں نےکبھی کانٹا بھی نہیں چُبھنے دیاتھا،اپنے پاپاکی غیر موجودگی نے اُسے کس دوراہے پر لاکھڑا کیا کہ وہ زندگی اور موت کے بیچ جُھول رہی تھی۔

’’میرا بیٹا رضوان، اُجالا کا کلاس فیلو ہے۔ جب ہنگامے شروع ہوئے ، تو رضوان نے اس سے اور اپنی کلاس کی کچھ دیگر لڑکیوں سے کہا کہ وہ ہمارے گھر آجائیں کہ ہمارا گھر یو نی وَرسٹی سے نزدیک ہے ۔ میری بھی تین بیٹیاں ہیں۔ ہم نے اُجالا اورباقی بچّیوں کو یہی سوچ کر پناہ دی کہ اکیلی لڑکیاں کہاں جائیں گی۔ اُجالا ساری رات پریشان رہی، بس یہی کہے جا رہی تھی کہ امّی رو رہی ہوں گی، پاپا پریشان ہوں گے، لیکن فون،نیٹ ورک سب بند ہو گیا تو کسی طرح رابطہ ہی نہیں ہوسکا۔ اس بچّی نے فجر پڑھتے ہی کہا کہ اب مجھے گھر چھوڑ آئیں ، میرے گھر والے بہت پریشان ہوں گے، وہ بتا رہی تھی کہ آپ سب نے اسے کتنے نازوں سے پالا ہے۔ ‘‘ اسپتال میں دیکھنے آئی اُجالا کے کلاس فیلو کی والدہ نے جب پوری بات بتائی، تو سُن کر میرے بیٹے کا سر شرم سے جُھک گیا اور بیوی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ’’آپ کی بیٹی ایک نیک فطرت بچّی ہے، ایسی بیٹیاں تو قسمت والوں ہی کو ملتی ہیں۔ یہ جس گھر جائے گی، اُجالا ہی اُجالا بکھیر دے گی۔ ‘‘ انہوں نے جاتے جاتے رُک کر کہا، تو جیسے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے بچّوں پر شک کرکے در اصل خود اپنی تربیت ہی پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ آہ…!! ہمیں اپنی ہی تربیت اور خون پر بھروسا نہیں ہوتا، دوسروں کی گواہی ہی ہماری آنکھیں کھولتی ہے۔ بیٹیاں تو نازک آبگینے ہوتی ہیں، انہیں تو کانچ ہی کی طرح سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے۔میری بچّی جس کی ہنسی، قہقہوں سے پوراگھر گونجتا تھا، آج اسپتال کے بستر پر خاموش پڑی تھی۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے، آج کی رات اس کے لیے بہت اہم ہے۔ 

مَیں سجدے میں گرا، اپنے ربّ کے حضور بس اپنی بچّی کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ ’’یا اللہ! ایک بار پھر سے میرے گھر میں اُجالا کردے، تُو نے ہی اس رحمت سے مجھے نوازا تھا، اب مجھے اس سے محروم نہ کرنا۔ اے میرے مالک! میری بچّی کو زندگی ، صحت دے دے ۔‘‘رات کی تاریکی نے نیلا پیرہن اوڑھا۔ میرے سجدے،دُعائیں سب کا محور اُجالا تھی۔ ڈاکٹرز آئی سی یو سے باہر آئے تو مَیں ان کے چہرے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا’’آپ کی بیٹی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔‘‘ یہ الفاظ نہیں، میرے لیےنئی زندگی کی نوید تھے۔

’’تھینک یو سو مچ پاپا!آپ نے کچھ پوچھے، سُنے بغیر مجھ پر اعتماد کیا۔ آپ دنیا کے بہترین پاپا ہیں۔ ‘‘ ہوش میں آنے کے بعد اُجالا نے میرا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ ’’میری گڑیا! تم ابھی آرام کرو اور کچھ مت سوچو، جو ہوا، اسے بُرا خواب سمجھ کر بھول جاؤ اور یاد رکھو کہ جب تک تمہارے پاپا زندہ ہیں، تب تک میری بچّی پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔تم میرا مان تھیں، ہو اور ہمیشہ رہو گی۔‘‘’’اور…اگر دنیا کی ہر اُجالا کو آپ کے جیسے پاپا مل جائیں، تو یہ دنیا کتنی محفوظ ، کتنی خُوب صُورت ہوجائے۔‘‘میری بیٹی کے چہرے پر پھیلا سکون و اطمینان ، اس کے قلبی احساسات کی گواہی دے رہا تھا۔

تازہ ترین