• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ کی کیا بات کرنی، بھوکے ننگوں کے کیا بجٹ، زرِ مبادلہ مانگے تانگے کا، ملک کے ہر شعبے کا سوا ستیاناس ہو چکا، آبادی ایک انار ہزار بیمار، معیشت بے پیندے کا برتن، جتنا ڈالتے جاؤ برتن خالی، تجارت زمین میں دھنسی ہوئی، اسٹاک ایکسچینج روز تباہی کی نئی داستان، ڈالر اپنی مرضی کا مالک، پچھلے سال ترقی، ٹیکس، خسارہ کوئی ہدف پورا نہ ہو سکا، حالت یہ تھی۔

تبدیلی سرکار نے گزشتہ برس ترقی کی شرح 3.3فیصد رکھی پھر خودہی کم کر کے 1.9فیصد کر دی، بجٹ کی کیا بات کرنی، یہ پی ٹی آئی کا بجٹ کہاں، بس پی ٹی آئی نے پیش کیا، یہ عوام کا بجٹ کہاں۔

بس عوام کے نام پر پیش ہوا، یہ آئی ایم ایف کا بجٹ، فل اسٹاپ، کاموں سمیت آئی ایم ایف کا بجٹ، بنوانے والا بھی آئی ایم ایف، بنانے والے بھی آئی ایم ایف کے، حکومت تو اتنی بے بس، سرکاری ملا زمین کی 20فیصد تنخواہ، 10فیصد پنشن بڑھانا چاہتی تھی، آئی ایم ایف نے انکار کر دیا، حکومت نے 10فیصد تنخواہ، 10فیصد پنشن بڑھانے کی درخواست کی، آئی ایم ایف نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔

بجٹ کی کیا بات کرنی، بجٹ کی وہاں اہمیت، جہاں سال میں ایک بجٹ آتا ہو، یہاں تو روز بجٹ آئیں، بجٹ کی وہاں اہمیت جہاں حکومتیں جھوٹ نہ بولتی ہوں، منافقت نہ کرتی ہوں، چیزیں نہ چھپاتی ہوں، یہاں تو کبھی اصل اعداد و شمار کی ہوا نہ لگنے دی گئی، بجٹ کی وہاں اہمیت جہاں کا سرمایہ دار، تاجر، صنعتکار بے ایمان، ڈاکو، ٹیکس چور نہ ہو۔

یہاں تو اشرافیہ کا ہر دھندہ ہی دس نمبری، بجٹ کی وہاں اہمیت جہاں عوام حکومتی وعدہ خلافی پر احتساب کر سکتی ہو، یہاں عوام کی اوقات، حیثیت بریانی کی ایک پلیٹ، قیمے والا ایک نان، بجٹ کی وہاں کیا بات کرنی۔

جہاں اگلے سال کی ترقی کے سارے اہداف 25سو سے 3ہزار ارب کا نقصان کر چکے کورونا سے منسوب اور کورونا آؤٹ آف کنٹرول، جہاں نااہلی، نالائقی، کنفیوژن کے ساتھ ٹڈی دل کا رقصِ بسمل جاری، جہاں بیرونی قرضہ 43ہزار ارب تک پہنچ چکا ہو۔

مطلب جی ڈی پی کا 98فیصد، مطلب 22 مہینوں میں تبدیلی سرکار 13ہزار ارب کا قرض لے چکی ہو، مطلب زرداری حکومت نے روزانہ قرضہ لیا ساڑھے 5ارب، نواز حکومت نے روزانہ قرضہ لیا 8ارب جبکہ عمران حکومت روزانہ قرضہ لے رہی 18ارب، مطلب اس وقت ہر پاکستانی دو لاکھ کا مقروض، یہ بھی سنتے جائیے۔

2008میں پی پی حکومت جب اقتدار میں آئی تو ملکی قرضہ 6ہزار ارب، پی پی نے اسے پہنچا دیا 16ہزار ارب پر، نواز حکومت آئی، اس نے 16ہزار ارب کو پہنچا دیا 30ہزار ارب پر، جبکہ عمران حکومت نے صرف 22مہینوں میں اسے پہنچا دیا 30ہزار ارب سے 43ہزار ارب پر۔ بجٹ کی وہاں کیا بات کرنی، جہاں فی کس آمدنی 1653ڈالر سے 1153ڈالر پر آچکی ہو۔

جہاں شرح نمو 5.8سے 0.38پر آگری ہو، جہاں بجٹ خسارہ 23سو ارب سے بڑھ کر 4ہزار تین سو ارب 37کروڑ تک پہنچ گیا ہو، جہاں گردشی قرضہ 12سو ارب سے 2ہزار ارب ہو گیا ہو، جہاں قرضوں کا سود 3ہزار ارب جبکہ وفاق، صوبائی ترقیاتی بجٹ 1324ارب ہو، جہاں ٹیکس ریونیو شارٹ فال 8سو ارب ہو، جہاں اگلے سال حکومتی ہدف یہ ہو کہ 22کھرب 23ارب قرضہ لینا ہے، 14کھرب 12ارب قرضہ واپس کرنا جبکہ 8کھرب 11ارب سے بجٹ خسارہ پورا کرنا، جہاں اگلے سال حکومت صرف کمرشل بینکوں کی 917ارب کی مقروض ہونے جا رہی ہو۔

جہاں تبدیلی سرکار گزرے دو سالوں میں ٹیکس ہدف پورا نہ کر سکی ہو، جی ڈی پی ترقی ہدف نہ پورا کر سکی ہو، فسکل خسارے کا ہدف پورا نہ کر سکی ہو، اور اوپر سے اسے رواں مالی سال میں 4ہزار 9ارب کا پہاڑ جتنا ٹیکس ہدف بھی پورا کرنا ہو، جہاں سرکاری اداروں کا خسارہ سالانہ 14سو ارب سے بڑھ کر 28سو ارب ہو گیا ہو۔

ذرا یہیں رکیے، تبدیلی سرکار منشور کے دو اہم پوائنٹ، احتساب اور ادارہ جاتی اصلاحات، احتساب جیسے آدھا تیتر آدھا بیٹر ہو چکا، وہ سب کے سامنے، ادارہ جاتی اصلاحات مطلب اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی دو سالہ کارکردگی یہ کہ پہلے ان اداروں کا خسارہ تھا 14سو ارب، اب یہ ہو چکا 28سو ارب، کیوں کیسا ہے؟

بجٹ کی وہاں کیا بات کرنی، جہاں ہر دوسری شاخ پر الو بیٹھا ہو اور ہر الو دوسرے الو کو بیوقوف بنا رہا ہو، جہاں صرف 22مہینوں میں تمباکو مافیا انوکھا ریلیف سمیٹ چکا ہو، جہاں دوائی مافیا رج کے کما چکا ہو، جہاں آٹا، گندم مافیا روز نقبیں لگا رہا ہو، جہاں چینی مافیا نوٹوں کے ڈھیر لگا چکا ہو، جہاں نجی بجلی گھر مافیا ملکی معیشت کی چولیں ہلا چکا ہو، بلاشبہ چینی، نجی بجلی گھر ڈاکوں میں تبدیلی سرکار قصوروار نہیں۔

یہ پچھلے جیرے بلیڈوں کے کرتوت، بلاشبہ تبدیلی سرکار نے 5ہزار ارب قرضہ واپس بھی کیا، بلاشبہ تبدیلی سرکار کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب ڈالر سے 3ارب ڈالر پر بھی لے آئی، بلاشبہ وزیراعظم، کابینہ، وزارتوں کی کفایت شعاری قابل تعریف، مگر جس حکومت کا ہوم ورک نہ ہو، رائٹ پیپل فار رائٹ جاب نہ ہو، موقع شناسوں کی بھرمار ہو، موقع پرست وزیر، مشیر بنے بیٹھے ہوں۔

حکومت میں بیٹھے لوگ ذاتی کاروبار کر رہے ہوں اور جہاں گورننس کی صورتحال یہ ہو، آٹا، گندم وافر مگر آٹے، گندم کا بحران پیدا ہو جائے، چینی سے گودام بھرے ہوئے مگر چینی کا قحط پیدا ہو جائے، پٹرول موجود ہو مگر عوام کو پٹرول نہ ملے، وہاں حکومت، حکومتی رٹ، حکومتی بجٹوں پر کیا بات کرنی، اور ہاں جہاں بڑی 15ملکی صنعتوں میں سے 11کی کارکردگی منفی اور صرف 4صنعتوں کی پرفارمنس مثبت ہو، وہاں بجٹ کی کیا بات کرنی۔

قصہ مختصر، یہ آئی ایم ایف کا بجٹ، حکومت بے بس، آئی ایم ایف کی ایسی ایسی شرطیں مانی جا چکیں، ہاتھ، پاؤں باندھے جا چکے، اب مرضیاں چل رہیں آئی ایم ایف کی، یاد آیا، کیا مکافاتِ عمل، 8اگست2014، عمران خان کہہ رہے تھے۔

آئی ایم ایف، ورلڈ بینک نواز حکومت کو قرضہ نہ دیں اگر قرضہ دیا تو ہم حکومت میں آکر یہ قرضہ واپس نہیں کریں گے، آج عمران خان ایسے بے بس، جو کر رہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والے کر رہے، اب بتائیے، یہ صورتحال، کون سا بجٹ، کہاں کا بجٹ، لہٰذا چھوڑیے، بجٹ کی کیا بات کرنی۔

تازہ ترین