• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد(جو کبھی لائل پور کے نام سے مشہور تھا ویسے پرانے لائل پوری ، اسے آج بھی لائل پور کہتے ہیں) میں محسن پاکستان بلکہ عالم اسلام کے محسن اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صدارت میں تعلیم کے موضوع پر بڑا خوبصورت سیمینار منعقد ہوا۔
فیصل آباد کبھی صنعتی لحاظ سے ایوب خاں کے دور حکومت میں واقعی مانچسٹر تھا مگر پی پی کی حکومت نے بجلی اور گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کرکے ملک کی تمام صنعتوں، فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں کو تباہ کردیا اور اب وہاں بھوتوں کے بھیانک سائے پھرتے ہیں۔ فیصل آباد کے کئی صنعت کار اور ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان نے اپنے کارخانے اور ملیں بنگلہ دیش اور دبئی میں لگالی ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس سیمینار میں بڑی خوبصورت اردو بولتے ہوئے اپنے ماضی کے واقعات کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد ہیڈ ماسٹر تھے اور پورے گھرانے میں ہر وقت تعلیمی ماحول تھا۔
تقریب منعقد کرانے والوں کی یہ دلی اور ابدی خواہش تھی کہ اس سیمینار کی ساری کارروائی ہر صورت انگریزی زبان میں ہوحالانکہ اس سیمینار میں شرکت کرنے والے ،سننے والے اور خطاب کرنے والے سب پاکستانی تھے اور سب کو ا ردو کی سمجھ آتی تھی۔ کتنی دلچسپ اور افسوسناک حقیقت ہے کہ جن پرائیویٹ سکولوں نے اس ملک پاکستان میں رہ کر دو دو سو سرانچیں بنالی ہیں۔ آج وہ اردو کے نام پر ناک منہ چڑھاتے ہیں ۔ آج تمام پرائیویٹ سکولوں میں جس سختی اور زور کے ساتھ انگریزی زبان کو پرموٹ کیا جارہا ہے وہ باعث افسوس ہے۔
دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک مثلاً چین، ترکی، کوریا اور ایران وغیرہ میں تعلیم ان کی اپنی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ ترکی جس کا ذکر میاں شہباز شریف اکثر کرتے ہیں اور اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، وہاں پر میڈیکل کی تعلیم ترکی زبان میں دی جاتی ہے۔ کیا ترکی کے ڈاکٹرز کسی سے کم ہیں؟ کیا وہ آئے دن مریضوں کو مارتے رہتے ہیں؟ کیا چین میڈیکل سائنس میں پیچھے رہ گیا ہے؟ کیا جاپان ، کوریا ، ایران اورروس نے ترقی نہیں کی؟
ڈاکٹر قدیر خان اردو میں جب بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جسے مدہم مدہم لہریں چل رہی ہوں۔ تقریب کے اختتام پر اس ادارے کی ایک رکن نے چائے کی میز پر تبصرہ کررہی تھیں ”ہم سمجھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر خان انگریزی میں تقریرکریں گے، لگتا ہے کہ انہیں انگریزی نہیں آتی“۔ یہ تبصرہ سن کر ہمیں بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ ہمارا اس محترمہ سے سوال ہے کہ کیا ڈاکٹر خان نے پی ایچ ڈی اور ایٹم بم کا فارمولا بغیر پڑھے حاصل کر لیا تھا اور ڈاکٹر قدیر خان جس قدر اچھی اور اعلیٰ معیار کی انگریزی بولتے اور لکھتے ہیں اس ادارے میں کوئی اس انگریزی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔آج ہمارے ملک میں بعض انگریزی میڈیم سکولز وہی سلوک کررہے ہیں جو انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد فارسی زبان کے ساتھ کیا تھا۔ نہ رہے گی فارسی اور نہ آنے والی نسلوں کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے سے آشنائی ہوگی چنانچہ اب باقاعدہ طور پر نئی نسل کو اردو زبان اور اردو ادب سے دور کیا جارہا ہے۔
لاہور کے ایک انگلش میڈیم سکول میں اساتذہ اور سٹوڈنٹس کو حکم ہے کہ وہ آپس میں بات چیت اردو زبان میں مت کریں ۔آج اردو بولنے والے کو تعلیم یافتہ نہیں سمجھا جاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی فلم انڈسٹری اردو زبان پر ہی انحصار کرتی ہے۔ بھارتی فلموں کے اداکاروں کو بین الاقوامی شہرت صرف اور صرف اردو زبان کی وجہ سے ملی ہے۔ اردو فلمیں اور دوسرے وہاں کے وہ کروڑوں فلم کے شائقین جو یقینا ایک وقت کی روٹی چھوڑ کر فلمیں دیکھتے ہیں، اردو گانے سنتے ہیں اسی زبان کے گانے ہٹ ہوتے ہیں، فلمیں اردو زبان کی ہٹ ہوتی ہیں لیکن جب ایوارڈ کی تقریب ہوتی ہے تو ہر اداکار ،اداکارہ انگریزی زبان میں بات کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور ان کروڑوں لوگوں کو بھول جاتے ہیں جن کی ٹکٹوں کی وجہ سے وہ آج سٹار بنے ہوئے ہیں۔21مارچ1948ء کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ (اس وقت مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا”میں آپ کو واضح طور پر بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہوگی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی ا ور نہ کوئی کام کرسکتی ہے۔پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہوگی اور میں اردو کی خدمت کو قوم کی خدمت سمجھتا ہوں“۔
بابائے قوم کے اس فرمان پر آج اس ملک میں کس قدر عملدرآمدہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے آئین کو نافذ ہوئے چالیس برس بیت چکے ہیں لیکن اردو کو سرکاری زبان بنانے کا معاملہ ابھی تک التواء کا شکار ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے تھوڑابہت کام ہوا تھا۔ آج ہماری سیاسی پارٹیاں انتخابات میں اپنی زبان کا استعمال کرکے تقریریں کررہے ہیں کیا ہمارے سیاسی لیڈرز انگریزی میں تقاریر کررہے ہیں، وہ اردو، پنجابی،سندھی،پشتو،بلوچی اور کشمیری زبان میں تقریر کررہے ہیں کیونکہ پاکستان کے بعض انتہائی پسماندہ علاقوں میں وہاں کی علاقائی زبان میں بات کرنا پڑتی ہے۔جب مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا تب بنگالی زبان کو بھی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا اور لوگوں کو یاد ہوگا کہ پی ٹی وی لاہور سنٹر،بنگالی میں اور ڈھاکہ سنٹر اردومیں بھی ایک نیوز بلٹن نشر کرتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے مغربی پاکستان کے بعض سٹیشن اور مشرقی پاکستان کے بعض سٹیشن اردو میں پروگرام نشر کرتے تھے اور اردو بنگلہ زبان اور بول چال سکھائی جاتی تھی۔ آج سب کچھ کہاں گیا؟1973ء کے آئین کی دفعہ251میں اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے اور آئین کے نفاذ کے پندرہ برس کے اندر اندر اردو کو سرکاری دفاتر میں رائج کرنے کے اقدامات کے بارے میں کہا گیا لیکن آج تک اردو کو اس کی سرکاری حیثیت نہ مل سکی ۔ہماری عدالتوں میں اگر آج بھی تمام خط و کتابت اور وکیل صاحبان اور جج صاحبان کے ریمارکس ،کارروائی اور نوٹ اردو میں لکھے جائیں تو اس سے ہمارے لوگوں کو اپنی بات بیان کرنے میں بہت سہولت ہوجائے گی۔
حال ہی میں بھارت کی تلنگانہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد اکبر علی خان نے کہا کہ اردو ذریعہ تعلیم ترقی میں رکاوٹ نہیں جب اردو ذریعہ تعلیم رکھنے والے اپنی مہارتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ان کی اہمیت کو بھی دنیا قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
بھارت میں اردو سکولوں کو انفراسٹرکچر کی فراہمی کی سکیم شروع کی جارہی ہے مگر اپنے ہاں اردو کو ختم کرنے کے لئے پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ ایک زمانے تک بے چاری انجمن ترقی اردو بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سرکردگی میں ملک میں اردو کے فروغ کے لئے بہت کام کرتی ہی اور کبھی ماضی میں حکومت بھی ا س کی سرپرستی کرتی رہی مگر آج کیا ہے؟
حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں کے نصاب کو چیک کرے، وہاں پر دی جانے والی تعلیم کا جائزہ لے اگر انگریزی کے علاوہ باقی مضامین کی تعلیم اردو میں دی جائے گی تو اس سے یقینا اس ملک کی شرح خواندگی اور معیار تعلیم بڑھے گا۔ ایک زمانے میں تو سی ایس ایس کے ا متحانات کو بھی اردو میں لینے کی بات ہوئی تھی ۔ہمارے جو لوگ سی ایس ایس کرتے ہیں انہوں نے بعد میں پاکستان کئی علاقوں میں اپنے فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں پر انگریزی تو بہت دور کی بات انہیں اردو میں بھی بات کرنا نہیں آتی۔ وہ تو اپنی علاقائی زبان میں بعض اوقات بات کرتے ہیں چنانچہ ہمارے انگلش میڈیم سکولوں میں جو اردو کے بارے میں تعصب پیدا ہورہا ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔اردو زبان میں معلومات کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے اگر اس کو محفوظ نہ کیا گیا تو ضائع ہوجائے گا کہ اردو پڑھی اور پڑھائی جاتی رہے آخر میں اتنا کہوں گا کہ ڈاکٹر قدیر خان کو انگریزی بھی بڑی اچھی آتی ہے اور وہ اعتراض کرنے والوں سے زیادہ اچھی انگریزی بولتے ہیں۔
تازہ ترین