بلوچستان کا مالی سال 2020-21 کا بجٹ 18 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے، یوں تو ہمارئے ہاں وفاقی اور صوبوں کے بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر یا اس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے احتجاج روایت بنتی جارہی تو اپوزیشن کی جانب سے بجٹ کو مسترد کرنا اور احتجاج حکومتوں کے لئے بھی اب نئی بات نہیں رہی، تاہم بلوچستان میں اس حوالے سے صورتحال کچھ اور ہے بلوچستان میں اپوزیشن کی جماعتوں نے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی صوبائی بجٹ سے کافی پہلے ہی احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے، اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔
ان کے حلقوں میں مداخلت کے ساتھ ان کے عوامی حق نمائندگی کو بھی تسلیم نہیں کیا جارہا، اس سلسلے میں گزشتہ دنوں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان بلوچستان اسمبلی بلوچستان اسمبلی سے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ تک احتجاجی مارچ کرتے ہوئے ریڈ زون مین دھرنا دیا، قبل ازین پولیس نے جب اپوزیشن اراکین کو ریڈوزن کے اندر جانے سے روک دیا تھا تو اراکین اسمبلی نے ریڈ زون کے باہر ہی شدید احتجاج کیا تھا اور پھر رکاوٹوں کو عبور کرکے ریڈ زون میں داخل ہوگئے تھے، اپوزیشن اراکین نے یہاں موقف اختیار کیا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے اپوزیشن اراکین کو روک کر ان کا استحقاق مجروح کیا، اس موقع پر اپوزیشن ارکان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ان کے مرحوم والد جام محمد یوسف کے خلاف بعض ریمارکس پر صوبے کی حکمران جماعت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے اب تک احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے، بلوچستان میں احتجاج کرنے والی اپوزیشن کا موقف ہے کہ اس نے ہمیشہ بلوچستان کے عوام کے حقوق، میرٹ کی بحالی، کرپشن کے خاتمے کے لئے آواز بلند کی، اسمبلی فلور اور اس سے باہر ہمیشہ کہا کہ جن لوگوں کو انتخابات میں شکست ہوئی ہے انہیں نہ نوازا جائے، حکومتی فنڈز سے کسی پارٹی کی پذایرئی غیر قانونی عمل ہے، وزیراعلیٰ صوبے کے انتظامی سربراہ ہیں ان کی آئینی اور قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کیساتھ انصاف کریں لیکن انہوں نے ٹھان رکھی ہے کہ صوبے میں انصاف نہیں ہوگا۔
اپوزیشن کا موقف ہے کہ ان کےحلقے بھی وزیراعلیٰ کے حلقے کے برابر ہیں ان کے حلقوں کے لوگوں کی بھی اتنی ہی ضروریات ہیں مگر حکومتی ارکان کے حلقوں کو تو کروڑوں روپے سے نوازا اور ان کے حلقے کے لوگوں کو ترقی سے محروم رکھنا ظلم کے مترداف ہے، حکومت جب تک اپوزیشن کے حلقوں کو برابری کی بنیاد پر فنڈز فراہم نہیں کریگی تب تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ صوبے کی حکمران جماعت کے گزشتہ عام انتخابات میں اپوزیشن ارکان کے مقابلے میں شکست کھا جانے والے امیدواروں کو صوبائی حکومت کی جانب سے نوازا جارہا ہے، اپوزیشن ارکان کے ریڈ زون میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے طویل دھرنے کے دوران صوبائی وزراء کی متحدہ اپوزیشن کے ارکان سے دو بار مذاکرات ہوئے، صوبائی وزراء پر مشتمل وفد جب پہلی بار مذاکرات کے لئے آیا تو اس پر اپوزیشن ارکان اسمبلی نے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعلیٰ کے سوا کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے جس پر مذاکراتی کمیٹی مشاورت کیلئے چلی گئی، بعد ازاں مذاکرات کے دوسرے دور میں حکومتی وفد کے ارکان سردار عبدالرحمٰن کھیتران، میر ضیاء لانگو، وزیراعلیٰ کے مشیر محمد خان لہڑی اور رکن اسمبلی اصغر خان اچکزئی نے یقین دہانی کرائی کہ متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی وزیراعلیٰ سے مطالبات کے سلسلے میں مذاکرات کرائی جائے گی جو 12 جون کو اگرچہ ہوئی تو لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا جس کے بعد یہ مذاکرات اب دوبارہ پیر 15 جون کو ہونا طے پائے جو ان سطور کی اشاعت تک ہوچکے ہوں گے اسی دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت اجلاس میں رواں مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں شامل منصوبوں کی پیش رفت، فنڈز کے اجراء اور اب تک ہونے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری سے متعلق امور کا جائزہ لیتے ہوئے بعض اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی۔ حکومتی اعدا و شمار کے مطابق اب تک ترقیاتی مد میں 76 ارب روپے کا اجراء کیا گیا ہے۔
جو گزشتہ برسوں کے مقابلے سب سے زیادہ ہےاس اجلاس میں بتایا گیا کہ پلاننگ کمیشن کی گائیڈ لائن کے مطابق محکموں نے آئندہ مالی سال کے لئے نئے تجویز کئے گئے ترقیاتی منصوبوں کی دستاویزات محکمہ منصوبہ بندی کو فراہم کر دی ہیں جن پر ابتدائی کاروائی کی جارہی ہےصوابائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں بھی غیر ترقیاتی فنڈز کو کم سے کم سطح پر رکھتے ہوئے ترقیاتی مد میں زیادہ فنڈز مختص کئے جائیں گے، تمام محکمے قواعد کے مطابق اپنے ترقیاتی منصوبوں کی اونر شپ لیں گے جاری منصوبوں کے لئے فنڈز ضلعی مانیٹرنگ کمیٹی ڈویژنل کمشنروں اور وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کی سفارشات کے مطابق مختص کئے جائیں گے،محکمے اپنے پرانے، نامکمل اورمنجمد کئے گئے منصوبوں کی نشاندہی کرنے کے پابند ہوں گے اور اس ضمن اپنی رپورٹ جلد از جلد محکمہ منصوبہ بندی کو ارسال کرینگے۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں موجود اور اسمبلی سے باہر کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے کمر کس لی ہے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس پشتونخوا میپ کے مرکزی سیکرٹری و سابق صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال کی صدارت میں ہوا، جس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر صوبے کے تمام اضلاع میں پی سی آر لبیارٹری قائم کیے، کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے آلات سمیت دیگر سہولیات فراہم کیے، اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈکو چھیڑنے سے گریز کیا جائے۔