ندیم اشفاق
عالمی شہرت یافتہ فن کار،طارق عزیز کو کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا، وہ ایک شخصیت نہیں تھے، بلکہ ایک عہد کا نام تھے،’’دیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں ،آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘‘یہ آواز پاکستانی ٹیلی ویژن کے قیام کے پہلے دن سے ہم تک پہنچ رہی تھی، وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ وہ نامور براڈ کاسٹر تھے۔ ان کی گرج دار رسیلی آواز میں عجیب سی کشش تھی۔ ان کا60سالہ فنی کیریئر ریڈیو براڈ کاسٹنگ ،ٹی وی نیوز ریڈر ،میزبان، اینکر پرسن، فلم اور شعرو ادب کی سرگرمیوں سے مرصع رہا۔ تاہم ساری زندگی ’’نیلام گھر‘‘ ان کی شہرت کا مستند حوالہ رہا۔ طارق عزیز شو کے ذریعہ انہیں ملکی اور غیر ملکی سطح پر زبردست پذیرائی ملی۔
اس پروگرام کے ذریعے وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر پہنچے۔ انہیں طویل عرصے تک ایک ہی پروگرام کی میزبانی کرنے والے واحد اینکر پرسن کا اعزاز حاصل رہا۔ 26نومبر 1964کو پاکستان میں ٹیلی ویژن اسکرین سے گونجنے والی پہلی آواز طارق عزیز کی تھی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے انائونسر اور نیوز ریڈر تھے۔ ٹیلی ویژن کے قیام کی تیاریوں کے دوران وہ نئے بھرتی ہونے والے کارکنان کو خصوصی کلاس روم میں کام بھی سکھاتے تھے۔
طارق عزیز 28اپریل1936کو بھارت کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں عبدالعزیز کا شمار جالندھر کے سرگرم مسلم لیگی کارکنوں میں ہوتا تھا۔ وہ قرار داد پاکستان کی تحریک سے ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی بھی لکھا کرتے تھے اور یہی جذبہ حُب الوطنی طارق عزیز کو ورثہ میں ملا تھا۔ اپنے پروگرام کے اختتام پر ’’پاکستان ‘‘ زندہ باد‘‘ کا فلک شگاف نعرہ ان کی منفرد شناخت رہا۔ 1948میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان سے منٹگمری (ساہی وال) منتقل ہو گئے اور یہاں انہوں نے اپنے تعلیمی مراحل طے کیے، زمانہ طالب علمی میں انہوں نے مختلف تقریری مقابلوں میں حصہ لیا اور اساتذہ سے فنِ تقریر میں مہارت حاصل کی ۔شعر و ادب کا شوق انہیں بچپن ہی سےتھا۔ ان کے حافظے میں ہزاروں اشعار محفوظ تھے۔ جن کا اظہار وہ اپنے پروگراموں میں بھی کرتے رہے۔
طارق عزیز استاد بننا چاہتے تھے۔ تاہم انگریزی زبان میں عبور حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے شوق کی تکمیل نہیں کر سکے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے براڈ کاسٹر کی حیثیت سے کیا، یہاں ریڈیو کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے موقع پر عظیم براڈ کاسٹر اسلم اظہر انہیں ٹیلی ویژن پر لے کر آئے اور طارق عزیز نے26نومبر1964کو ٹیلی ویژن کی پہلی انائونسمنٹ کی اور بعد ازاں نیوز کاسٹر کے فرائض بھی ادا کیے۔
1974میں طارق عزیز نے ٹیلی ویژن کی دُنیا میں تاریخ رقم کرنے والا کوئز شو ’’نیلام گھر‘‘ کا آغاز کیا، جو پانچ چھ سال جاری رہنے کے بعد بوجوہ بند کر دیا گیا ۔بعد ازاں 2مئی1985کو کراچی سینٹر سے نئی تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ آغاز کیا گیا۔ یہ شو معلومات، تفریحی ،انعامات ،انٹرویوز کے علاوہ فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار، گلوکار، علم و ادب، کھیل، غرض کہ ہر شعبے کی معروف شخصیات سے دل چسپ ملاقات سے مرصع تھا۔ اس مقبول پروگرام کی انعامات کی فہرست میں کار بھی شامل کی گئی تھی۔ قبل ازیں ’’موٹر سائیکل‘‘ سب سے بڑا انعام ہوا کرتا تھا۔
نیلام گھر محض انعام دینے کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ یہ معلومات سے بھرپور پروگرام تھا، جس میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق معلوماتی سوالات شامل کیے جاتے تھے۔ اس ضمن میں ماہرین کا ایک پینل باقاعدہ سوال و جواب مرتب کرتا تھا۔ شو میں ’’بیت بازی‘‘ کا مقابلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا تھا، جس میں مختلف اسکول و کالجز کے طلبا و طالبات جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے اور ’’نیلام گھر‘‘ سے جیتی جانے والی ٹرافی ایک اعزاز سمجھا جاتاتھا۔ نیلام گھر کے دوسرے سیشن کے پروڈیوسر تاجدار عادل نے اس شو کو دل چسپ بنانے کے لیے بھرپور محنت کی، جس کے نتیجہ میں نیلام گھر ہر طبقہ فکرمیں پسند کیا جانے لگا۔ اور اس کا شمار ٹیلی ویژن کے منافع بخش پروگراموں میں ہونے لگا۔کراچی سینٹر سے شروع ہونے والے نیلام گھر میں ٹیلی ویژن کی سینئر فن کارہ قیصر نقوی کی صاحب زادیاں زہرہ نقوی، اور نور العین نے ساتھی میزبان کی حیثیت سے انپے کیئریر کا آغاز کیا۔ تاجدار عادل کے علاوہ نیلام گھر کے پروڈیوسرز میں عارف رانا، فیاض بیگ، فرخ بشیر اور دیگر شامل رہے۔ حسب روایت موجودہ نیلام گھر کو ’’بوجوہ‘‘ کچھ عرصے بعد پھر بند کر دیا گیا۔
’’نیلام گھر‘‘ طارق عزیز کے رگ وپے میں بس چکا تھا اور وہ اس شو کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔16جولائی1986کونیلام گھر کو ’’طارق عزیز شو ‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا۔ لاہور سینٹر سے اس پروگرام کے پروڈیوسر سید زاہد عزیر تھے۔سیاسی مصلحتوں کا شکار طارق عزیز کا یہ شو چند سال جاری رہنے کے بعد پھر بند ہو گیا ۔بالاخر 2002میں ’’بزمِ طارق عزیز‘‘ کے نام سے اس کا آغاز کیا گیا۔ جو غالباً تادم مرگ ٹیلی ویژن سے جاری رہا۔ یہاں یہ امر بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ 56سال سے گاہے بگاہے ٹیلی ویژن سے منسلک رہنے والے طارق عزیز کی وجہ شہرت صرف ’’نیلام گھر‘‘ بنا رہا۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے طارق عزیز کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں 1992ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔ فلم و ادب کے علاوہ طارق عزیز نے ملکی سیاست میں بھی بڑی سرگرمی سے حصہ لیا،لیکن اس شعبے میں وہ نمایاں کام یابی حاصل نہیں کر سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ پیپلز پارٹی کے جلسوں کے پرجوش مقرر کی حیثیت سے مقبولیت رکھتے تھے۔اسی دوران سیاسی وابستگی کے باعث انہیں پابند سلاسل بھی ہونا پڑا۔انہوں نے کچھ عرصے حیدر آباد سندھ کے سینٹرل جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بعد ازاں انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ وہ 1997سے1998تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔
طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ لا تعداد فلموں میں بھی اپنی فنی مہارت کا اظہار کیا ۔1964میں فلم خاموش رہو میں حصہ لیا ۔بعد ازاں فلم انسانیت، کٹاری، سالگرہ ،قسم اس وقت کی،چراغ کہاں روشنی کہاں، بہاروں کی منزل، زخمی ،افشاں ،سوداگر ،حکومت ،پیا ملن کی آس، منجھی کتھے ڈاہواں، ہار گیا انسان، اللہ میری توبہ، ایمان دار، کالو،کبڑا عاشق ،نشانی ،ہانگ کانگ ، زندگی سمیت دیگر فلموں میں جلوہ گر ہو ئے۔ انہوں نے فلم سازی بھی کی، لیکن وہ اس میدان میں کام یاب نہیں ثابت ہوئے۔ بہ طور فلم ساز ’’ساجن رَنگ رنگیلا‘‘ ان کی ناکام فلم ثابت ہوئی، جب کہ ’’ماں بنی دُلہن‘‘ ان کی آخری فلم تھی۔
طارق عزیز کو ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ وہ علم دوست شخص تھے۔ شعر و شاعری کے معاملہ میں ان کا حافظہ کمال کا تھا،ہزاروں اشعار انہیں مکمل تلفظ کے ساتھ ازبر تھے۔ان کے پروگرامز میں غلط شعر پڑھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع رہا۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ’’داستان ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے، جب کہ ان کی پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’’ہمزاد دا دُکھ‘‘ بھی خاصا پسند کیا گیا۔ ان کی کتاب ’’فٹ پاتھ سے پارلیمینٹ تک ‘‘ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ طارق عزیز کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ لاہور میں رہائش پذیر تھے۔
پاکستان سے لافانی محبت کے باعث2018میں انہوں نے اپنے تمام اثاثے حکومت پاکستان کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ طارق عزیز 17جون 2020کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ آخری دم تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے۔ طارق عزیز شو کے ذریعے انہیں ملکی و غیر ملکی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، بلکہ وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر پہنچے۔ وہ طویل عرصے تک ایک ہی پروگرام سے منسلک رہنے والے واحد میزبان ثابت ہوئے۔ جب بھی پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ لکھی جائے گی، طارق عزیز کا نام سب سے نمایاں شخصیات میں شامل کیا جائے گا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے لیجنڈ طارق عزیز نے اپنے آخری ویڈیو پیغام میں کورونا کےخلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز ، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو سلام پیش کیا۔ کسے معلوم تھا کہ ’’دیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں‘‘ کے جملے سے مشہور اس لیجنڈ کا اپنے روایتی انداز میں یہ آخری سلام ہوگا۔ سوشل میڈیا پر طارق عزیز کا یہ ویڈیو کلپ اُن کے پرستار بڑی تعداد میں شیئر کررہے ہیں ،جس کے باعث یہ سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ اپنے آخری ویڈیو پیغام میں طارق عزیز نے اپنی رُعب دار آواز میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو طارق عزیز کا سلام پہنچے ۔
انہوں نے کہا کہ آج کل جہاں بھی جائیے،ایک ہی بات سُننے کو ملتی ہے کہ یہ عالمگیر وَبا کوویڈ 19 کب ختم ہوگا، اس کے بارے میں ابھی کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، لیکن پاکستان کے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے جس جواں مردی سے اس وَبا کا مقابلہ کیا ہے،وہ قابلِ داد ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں یہ امید ظاہرکی کہ جس طرح سے پاکستان کے ڈاکٹرز اس وَبا سے لڑرہےہیں، انشاء اللہ ہم سب کام یاب و کام ران ہوں گے۔ آخر میں انہوں نے ڈاکٹرزکو مخاطب کرت ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور ایک شہرہ آفاق نظم ’’تم کھڑے تھے‘‘ بھی پڑھی۔ لہو میں بھیگے تمام موسم گواہی دیں گے۔
وفا کے رستے کے سب مسافر گواہی دیں گے، کہ تم کھڑے تھے۔ سحر کا سورج گواہی دے گا کہ جب اندھیرے کی کوکھ سے نکلنے والے یہ سوچتے تھے کہ سب مسیحا مرچکے ہیں، تم کھڑے تھے۔طارق عزیز میں پاکستانیت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ایسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔میرا رب ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین