وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نےاعتراف کیا کہ ایوان میں پیش کی گئی کراچی طیارہ حادثے کی انکوائری رپورٹ ابھی ادھوری ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کے میڈیا بریفنگ میں غلام سرور خان نے 22 مئی کے طیارہ حادثے کا ذمے دار پائلٹ کو قرار دے دیا۔
انہوں نےکہا کہ طیارہ حادثے کی ایک ماہ میں عبوری رپورٹ لانے کے احکامات پر عمل درآمد کیا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ کاک پٹ کی گفتگو وائس ریکارڈر اور ڈیٹا ریکارڈر میں موجود ہے اور سب سے قابل بھروسہ معلومات ریکارڈر کی ہی ہوسکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طیارہ حادثے کی رپورٹ آج ایوان میں پیش کردی گئی، یہ انکوائری رپورٹ ابھی ادھوری ہے۔
غلام سرور خان نے یہ بھی کہا کہ حادثے کے 4 دن بعد یعنی 26 مئی کو فرانس کی 10 رکنی ٹیم پاکستان پہنچی، یکم جون تک سائٹ اور رن وے کا معائنہ اور اے ٹی سی کا ریکارڈ چیک کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فرانسیسی ٹیم ریکارڈ لے کر فرانس گئی اور 2 تاریخ کو ریکارڈز کی ڈی کوڈنگ ہوئی جبکہ انکوائری ابھی جاری ہے۔
وفاقی وزیر ہوابازی نے بتایا کہ کہا گیا پائلٹ اس رپورٹ میں فریق نہیں ہیں، 22 مئی تک طیارے نے 6 کامیاب پروازیں کیں، 5 کامیاب پروازیں لاہور،کراچی روٹ پر ہی ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پائلٹ نے فائنل اپروچ میں کسی خرابی کی نشاندہی نہیں کی، رن وے سے 10 منٹ کے فاصلے پر طیارے کو 2500 فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا، تاہم 10منٹ کے فاصلے پرطیارہ 7ہزار 220 فٹ کی بلندی پر تھا۔
غلام سرور خان نے مزید کہا کہ پائلٹ کو کہا گیا لینڈنگ نہ کریں ایک اور چکر لگا کر آئیں لیکن پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایت کو یکسر نظر انداز کیا۔
انہوں نےکہا کہ ڈیٹا انٹری ریکارڈ میں وہ تمام ایکشن ریکارڈ ہوتے ہیں، جو پائلٹ طیارہ اڑاتے ہوئے کرتا ہے، طیارہ لینڈنگ کے لیے آیا تو 3 سے 4 ہزار فٹ تک رن وے پر رگڑ کھاتا رہا۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ پائلٹ نے پوری قوت سے طیارے کو اٹھایا تو انجن کو نقصان پہنچا، پائلٹ اور کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا، کنٹرولر نے رگڑ سے طیارے کو پہنچنے والے نقصان سے آگاہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رن وے سے 10 ناٹیکل میل کے فاصلے پر لینڈنگ گیئر کھولے گئے، کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ موجود ہے۔