اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان سے ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ دونوں وزراء نے وزیراعظم سے فواد چودھری کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔
ذرائع کے مطابق اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فواد چودھری کے انٹرویو سے لگتا ہے ناکامیوں کے ذمہ دار ہم ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے کہا کہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پارٹی اور حکومت ہماری وجہ سے ناکام ہورہی ہے۔
اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جہانگیر ترین کیخلاف کوئی سازش نہیں کی نہ ہی حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فواد چودھری کیخلاف کارروائی نہ ہوئی تو نرمی کا تاثر جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: PTI میں کس نے کس کی چھٹی کرائی، فواد چوہدری نے بتا دیا
واضح رہے کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیرفواد چوہدری نے اپنی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں پول پٹیاں کھولتے ہوئے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی میں کس کی کس سے نہیں بنتی اور کس نے کس کی چھٹی کرائی ہے۔
ایک انٹرویو میں فواد چوہدری نے انکشاف کیا کہ اسد عمر کی وزارت جانے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا، انہوں نے بتایا کہ پہلے جہانگیر ترین نے اسد عمر کو نکلوایا اور پھر اسد عمر نے جہانگیر ترین کی چھٹی کرا دی۔
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے اختلافات اتنے بڑھے کہ پولیٹیکل کلاس سارے کھیل سے ہی باہر ہوگئی۔
فواد چوہدری کسی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے، فیاض چوہان
ان انکشاف پر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری پر برس پڑے اور وفاقی وزیر کے رویے کو غیر ذمے دارانہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کسی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے، یہ سقراط، بقراط اور ارسطو بنتے ہیں۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے مزید کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان ٹیم بنانے میں ناکام ہیں تو فواد چوہدری اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری نے جن رہنماؤں کا نام لیا ہے وہ عمران خان کی قیادت میں متحد اور متفق ہیں۔
دوسری جانب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے فواد چوہدری کے بیان پر کہا کہ کابینہ کی اندرونی گفتگو پر میڈیا میں بحث کرنا نامناسب ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ وفاقی وزیر کو سمجھنا چاہیے کہ پارٹی معاملات پر بات کرنے کےلیے پارٹی کا فورم موجود ہے۔
سینئر وزیر پنجاب علیم خان نے کہا کہ سب کو اپنے دل کی حق سچ بات کہنی چاہیے، مگر گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، اختلافات پر رائے کا اظہار باہر نہیں ہونا چاہیے۔