دبئی کے ولی عہد شیخ حمدان بن محمد بن راشد المکتوم نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم کوئی شخص غیر ملکی نہیں ، یہ ملک ان کا اپنا گھر ہے۔ یو اے ای مقامی افراد کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی ایک مثالی سرزمین ہے جو اپنی معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یو اے ای کے حکمرانوں کی جانب سے مقامی اور غیر ملکی افراد کے ساتھ یکساں محبت و احترام کا سلوک کیا جاتا ہے۔ کورونا کی وبا کی زد میں آئے امارات میں بھی انسانیت کی خدمت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاتا۔ یہ ہیں دبئی کے ولی عہد شیخ ہمدان بن محمد راشد المکتوم، جنہوں نے خدمات کے حوالے سے اماراتی اور تارکین وطن کے دل جیت لئے ہیں۔ دبئی میں مقیم ایک نوجوان کی جانب سے ٹوئٹ کیا کہ میرے 94؍سالہ والد بزرگ کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں دبئی حکومت نے فراہم کیں۔
نوجوان نے اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے اماراتی حکام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد کا آکسیجن سلنڈر ختم ہوگیا تھا۔ ان کی خرابی صحت کو دیکھتے ہوئے میں دبئی کمیونٹی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پاس گیا جنہوں نے اپنے ایک رضاکار کو میرے ساتھ روانہ کردیا۔ یہ رضاکار میرے گھر گیا، وہاں سے سلنڈر لے کر اسے بھروا کر دوبارہ گھر چھوڑ آیا۔ رضاکار نے دبئی حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا کہ آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟ یواے ای انسانوں کے ساتھ بہترین برتائو کرنا سیکھاتاہے۔ یہاں رہ کر ہم جان لیتے ہیں کہ عظیم قوم کس طرح وجود میں آتی ہے۔
درحقیقت کسی بحرانی کیفیت میں کسی قوم کی بلند اخلاقی اقدار کا پتا چلتا ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات میں 30؍ہزار پاکستانی متحدہ عرب امارات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مشکل حالات کی وجہ سے یہ سب پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ کئی ہزار پاکستانیوں کی ملازمت ختم ہوگئی ہے۔ حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ ان پاکستانیوں کو واپس لایا جائے۔ مشیر برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری کی زیرصدارت یواے ای میں پاکستانی سفارت کاروں ، پی آئی اے کے عہدیداروں، صحافیوں اور پاکستانی مراکز کے عہدیداروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سفیر پاکستانی غلام دستگیر، قونصل جنرل دبئی احمد امجد علی، صدر پی ٹی آئی دبئی چوہدری جاوید اقبال، صدر پاکستان ایسوسی ایشن ڈاکٹر فیصل، ممبر ابوظہبی چیمبر آف کامرس انڈسٹری خان زمان سرور، ملک ظہیر اعوان، صدر پاکستان جنرنلسٹس فورم اشفاق احمد، میاں اویس انجم اور عمران خان کے قریبی دوست عمران چوہدری نے شرکت کی۔
کانفرنس کے شرکاء نے کورونا سے نپٹنے کے لیے حکمت عملی پر غور کیا۔ زلفی بخاری نے واضح طور پر اعلان کیا کہ یو اے ای میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو جلد واپس وطن پہنچایا جائے گا خصوصاً انہوں نے پی آئی اے کا کرایہ کم کرنے اور ملازمت سے فارغ ہوجانے والوں کو پورے تعاون اور مدد کا یقین دلایا اور اعلان کیا کہ ہر ہفتہ 6؍سے 7؍ہزار پاکستانیوں کو لے جانے کا عمل شروع کیا جارہا ہے، تھوڑا صبر کریں، اگلے 5؍سے 6؍ہفتوں میں تمام پاکستانی اپنے وطن میں ہوں گے۔
یو اے ای میں انتقال کرجانے والے پاکستانیوں کی میتوں کو پاکستان لے جانے کے بھی احکامات جاری کئے۔ زلفی بخاری تو ہر حال میں پاکستانیوں کے مسائل اور مشکلات حل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے انہوں نے آرڈر بھی جاری کیا جس میں متحدہ عرب امارات سے پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس کے لیے جانے والی پروازوں کے کرائے بھی واضح کردیئے جسے ہر سطح پر سراہا گیا۔ یہاں پھنسے ہوئے پاکستانیوں نے حکومت پاکستان اور حکومت یواے ای کا شکریہ بھی ادا کیا کہ اب ہم جلد ازجلد پاکستان پہنچ جائیں گے۔ حکومت یو اے ای بھی اپنے شہریوں کو دوسرے ممالک سے لانے کے لیےپروازیں چلا رہی ہے جو بالکل مفت لائے گی لیکن پی آئی اے نے کرایہ تو کیا کم کرنے تھےبلکہ مسافروں کو لوٹنے کا نیا طریقہ ایجاد کرلیا۔
پی آئی اے نے کرایوں کو کلاسوں میں تقسیم کردیا اور حکومتی اعلان کو ہوا میں اڑا دیا۔ کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم کرائے والی کلاس "K" میں چند سیٹیں رکھی ہیں جبکہ دیگر کلاسوں "Y" اور "P" میں زیادہ سیٹیں رکھی ہیں اور ان کے کرائے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ کم کرایہ والی سیٹیں تو شاید ہی کسی کو ملیں، مجبوری کی وجہ سے مسافروں کو مہنگی ہی سیٹیں لینا پڑ رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کراچی، ملتان، لاہور، فیصل آباد، پشاور اور اسلام آباد کے لیے جو کرایہ حکومت پاکستان نے موجودہ حالات میں فکس کیا ہے، وہی سب مسافروں سے چارج کیا جائے لیکن ایسا نہیں ہورہا۔
مجبور پاکستانیوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر مشکلات کم کرنے کی بجائے کلاسوں کے چکر میں الجھا دیا گیا ہے اور وہی زیادہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد بار پی آئی اے حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن پی آئی اے والے اس موضوع پر بات کرنے پر تیار نہیں بلکہ دبئی قونصلیٹ میں پریس قونصلر آج کل پی آئی اے کی ترجمانی کرتے ہوئے زیادہ کرایوں کا دفاع کررہے ہیں۔
یہاں روزانہ قونصلیٹ کے باہر پاکستانی جمع ہوجاتے ہیں، ان سے کوئی ملنا گوارہ نہیں کرتا۔ ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ان مسافروں کی لسٹ لگائی جائے جنہوں نے پاکستان جانے کے لیے رجسٹرڈ کروایا ہے۔ قونصلیٹ کی ویب سائٹ پر چلے جائیں، ہزاروں پاکستانی اس کوشش میں ہیں کہ کوئی تو ان کو جواب دے کہ ہمارا کیا بنے گا۔ مجبور پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے اگر کسی جاننے والے یا حکومتی شخصیت کا فون آئے تو ان کا نام فوراً لسٹ میں آجاتا ہے، وہ اگلی پرواز سے پاکستان پہنچ جاتا ہے۔
میں یہاں دبئی میں کئی ایسے پاکستانیوں سے ملا ہوں جو وزٹ ویزا پر یہاں آئے تھے، اب ان کے پاس پیسے بالکل ختم ہوچکے ہیں، واپسی کا کرایہ نہیں ہے اور نہ ہی قونصلیٹ والے انہیں واپسی کا بتا رہے ہیں۔ کئی یہاں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں جو پاکستانیوں کے لیے یقیناً باعث شرم ہے۔ مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری یہاں موجود پاکستانیوں کی مشکلات دیکھتے ہوئے پی آئی اے کو پابند کریں کہ جو کرایہ آپ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے، اس پر عمل کریں اور یکساں کرایہ رکھیں۔
ان حالات میں کلاسوں "P" "K" اور "Y" سے باہر نکالا جائے۔ پوری دنیا میں حکومتیں اپنے شہریوں کیلئے بہت کچھ کرتی ہیں لیکن یو اے ای میں قونصلیٹ اور پی آئی اے نے ملی بھگت سے پاکستانیوں کو عجیب مشکل سے دوچار کررکھا ہے\بس یہی پیغامات مل رہے ہیں صبر کرو، صبر کرو۔ آخر کب تک یہ پاکستانی صبر کریں گے صرف ایئرپورٹ پر جاکر مسافروں کو الوداع کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ قونصل جنرل قونصلیٹ کے باہر روزانہ آنے والے پاکستانیوں کے مسائل حل کریں، روزانہ سیکڑوں پاکستانی قونصلیٹ کے باہر دھوپ میں کھڑے ہوکر آجاتے ہیں۔
جنہوں نے کئی ہفتوں سے رجسٹرڈ کروایا ہوا ہے وہ پاکستانی حکام سے پوچھتے ہیں کہ ان کا نام پاکستان جانے والی لسٹ میں کب آئے گا لیکن کوئی ان کو جواب دینے والا نہیں ہے۔ قونصلیٹ میں دو ویلفیئر و کمیونٹی قونصلر بھی موجود ہیںان کا کوئی پتا نہیں کہ کہاں ڈیوٹی پر ہیں۔ زلفی بخاری کو یو اے ای کے معاملات کو حل کرنا چاہئے۔