• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لڑکپن میں جیل جا کر سزائے موت پانے والا شخص 22 سال بعد رہا

نابالغ ہونے کے باوجود قتل کے الزام میں موت کی سزا پانے والا شخص 22 سال بعد منڈی بہاؤالدین کی جیل سے رہا ہو گیا۔

محمد اقبال کو 1999ء میں اس وقت سزائے موت سنائی گئی تھی جب وہ محض 17 برس کے تھے۔

محمد اقبال کی سزائے موت دیگر نابالغ مجرمان کی طرح 2001ء میں ایک صدارتی نوٹیفیکیشن کے تحت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی تھی تاہم انہیں یہ رعایت حاصل کرنے میں 19 سال لگ گئے۔

محمد اقبال کی سزائے موت جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک رٹ کے نتیجے میں عمر قید میں تبدیل کی گئی جس کے بعد ضابطے کی کارروائی مکمل کر کے انہیں منڈی بہاؤالدین جیل سے رہا کر دیا گیا۔

ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے 9 جون کے اپنے فیصلے میں بین الاقوامی قوانین اور ملکی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ نابالغ مجرم کی سزائے موت کی عمر قید میں تبدیلی کا معاملہ دوبارہ صدر کے پاس بھیجا جانا چاہیے۔

عدالت کے حکم کے مطابق اگر مجرم کے نابالغ ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو تو ہوم ڈیپارٹمنٹ کو صدر کے پاس دوبارہ رحم کی اپیل دائر کرنے کی ضرورت نہیں۔

محمد اقبال کے اہلِ خانہ نے اس موقع پر عدالتی فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اقبال اپنی زندگی ایک عام شہری کے طور پر گزار سکیں گے۔

اقبال کو 1998ء میں ڈکیتی کے دوران قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 1999ء میں انہیں سزائے موت سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیئے:۔

اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے291 قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کیلئے فہرستیں تیار

اقبال کی اپیلیں 2002ء میں خارج ہوگئی تھیں، 2004ء میں مقتول کے ورثاءنے بھی اقبال کو معاف کر دیا تھا تاہم ناقابلِ تصفیہ جرم ہونے کی وجہ سے ان کی سزائے موت ختم نہیں کی گئی تھی۔

اقبال کا ڈیتھ وارنٹ 2016ء میں آیا تھا جو نظرِثانی اپیل دائر ہونے کے بعد عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔

محمد اقبال کے والدین ان کی قید کے دوران ہی ان کی رہائی کی آس دل میں لیے انتقال کر گئے تھے اور وہ ان کا آخری دیدار کرنے سے بھی محروم رہے تھے۔

تازہ ترین