امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا پولیس کا سب سے اہم فریضہ تصور کیا جاتا ہے۔رہزنی، لوٹ مار کرنے والے گروہوں کی سرکوبی ہو یا جرائم پیشہ عناصر اور سماجی برائیاں پھیلانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا، پولیس ہر محاذ پر ڈٹ کر کھڑی نظر آتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران جہاں زندگی کے تمام شعبہ جات بری طرح متاثر ہوئے ہیں، وہیں اس بات کا امکان بھی موجود تھا کہ ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر پولیس کی توجہ لاک ڈاؤن کی طرف مبذول ہونے کا فائدہ اٹھا کر سرگرم ہوسکتے ہیں ۔سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیوں خاص طور پر شہری علاقوں میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
سندھ پولیس ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کےخلاف جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کررہی ہے۔ دوسری جانب ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر بھی ٹیکنالوجیز سے استفادہ کرتے ہوئے وارداتوں کی انجام دہی کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں۔لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان کے گھروں سے کمیںگاہوں پر بلانے والے گروہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ماضی میں ایسے گروہوں کا کسی حد تک خاتمہ کردیا گیا تھا تاہم اب ایک بارپھر ڈاکوؤں کی جانب سے لیڈیز ایپس استعمال کرتے ہوئےنسوانی آوازکا سہار لے کر اغواء برائے تاوان کی وارداتیں انجام دینے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے پولیس بھی بھرپور انداز سے کارروائیاں کررہی ہے، جس کا ثبوت کشمور پولیس کی جانب سے ایک ماہ کے دوران 15 سے زائد مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرانا، متعدد ڈاکوؤں کو گرفتار کرنا اور کچے کے جنگلات میں آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی درجنوں پناہ گاہوں کو مسمار و نذر آتش کرنا ہے۔
کشمور کے کچے کے جنگلات کو سندھ میں سب سے زیادہ خطرناک اور ڈاکووں کے لئے محفوظ علاقہ سمجھا جاتاہے۔ کشمور پولیس نےکارروائی کرتے ہوئے 15 سے زائد مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرایا ہے، جس میں سے متعدد افراد ایسے ہیں جو کہ نسوانی آواز کے جھانسے میں آکر ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسے تھے۔ایک جانب ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لئے پولیس متحرک دکھائی دیتی ہے تو دوسری جانب معمولات زندگی کو درہم برہم کرکے رکھ دینے والے قبائلی تنازعات کے خاتمے میں بھی پولیس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے کچے کے جنگلات میں جاری گرینڈ آپریشن اور مغویوں کی بازیابی کے حوالے سے ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ نے "جنگ" کو بتایا کہ ضلع بھر میں امن و امان کی فضاء کو برقرار رکھنے اور ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی کے لئے موثر حکمت عملی کے تحت کاروائیاں کی جارہی ہیں۔ ایک واردات میں ڈاکوؤں نے 3افراد شمن، شاہد شوکت کوری کو اغوا کیا تھا اور کچے کے علاقے میں لے گئے تھے۔مغویوں کا تعلق گھوٹکی کے علاقے سرحد سے ہے، جبکہ اس سے قبل بھی ڈاکوؤں نے غوث پور کے رہائشی 2 افراد کو اغوا کیا تھا، پولیس کی جانب سے مغویوں کی بازیابی کے لئے کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن کیا گیا، جس میں پولیس کو کامیابی ملی ہے۔کچے کے جنگلات میں 2 الگ الگ مقامات پر پولیس مقابلوں کے دوران ڈاکوؤں کے چنگل سے پانچوں مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔ دوسری واردات میں ڈاکوؤں نے اسلام آباد، تربت، کنڈیارو اور کندھکوٹ کے رہائشی 4 افراد کو نسوانی دلفریب آواز کے جھانسے میں دوستی کے بعد ملاقات کے لئے کچے کے علاقے میں بلایا ڈاکو انہیں اغواء کرنا چاہتے تھے۔
پولیس کو خفیہ ذرائع سےاس بارے میں اطلاع ملی جس کے بعد پولیس نے فوری طور پر کاروائی کرکے کندھ کوٹ کے رہائشی ڈرائیور خان محمد، اسلام آباد میں کام کرنے والے صابر ھاٹاری، کنڈیارو کے رہائشی دلدار اور تربت بلوچستان کے رہائشی ناصر خان پٹھان کو ان کے چنگل سے رہائی دلائی۔ ان چاروں افراد کو خواتین کی آواز میں فون کے ذریعے دھوکے سے بلایا جا رہا تھا۔
دیگر تین الگ الگ واقعات میں ڈاکوؤں نے مختلف حیلے و بہانے کرکے 6 سے زائد افراد کو اغواء کرنے کی کوشش کی، جس میں 3 افراد کو اغوا کرنے میں کامیاب ہوئے جب کہ دیگر3 وارداتیں ناکام بنائی گئی ہیں۔اغوا ہونے والے افراد کی بحفاظت بازیابی کے لئے پولیس کی جانب سے کچے کے علاقے میں آپریشن کیا گیا۔ پولیس مقابلے کےبعدتینوں مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔ پولیس نے مقابلے کے بعد 3 ڈاکوؤں کو زخمی حالت میں گرفتار بھی کیا ، جن کے قبضے سے اسلحہ و دیگر سامان برآمد ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ایک ماہ کے دوران 15 سے زائد مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرایا گیا، 5 سے زائد بدنام زمانہ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا گیا۔
ایک جانب ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور مغویوں کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنانا امن و امان بحال رکھنا تو دوسری جانب قبائلی تنازعات کے خاتمے میں کشمور پولیس کا کردار قابل تعریف و ستائش ہے، اس کا اعتراف خود کشمور کے سیاسی، سماجی، مذہبی، تجارتی حلقوںنے بھی کیا ہے۔