• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آئین میں 18 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے منظور کی تھی تو ملک کے کئی ’’اہم‘‘ حلقوں‘ مرکز اور بڑے صوبے پنجاب میں اس ترمیم کے خلاف وقت بہ وقت جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا مگر اب تک کسی مرحلے پر کسی بھی حلقے کی طرف سے اس ترمیم کو ختم کرنے یا اس میں مطلوبہ ترمیموں کو ختم کرنے کی سختی سے بات نہیں ہوئی تھی‘ یہ پہلی حکومت ہے جس کے نہ فقط ایم این ایز‘ ایم پی ایز اور وزیروں کی طرف سے 18 ویں ترمیم سے کم سے کم ایسی ترمیموں کا خاتمہ کرنے کے اعلانات کئے گئے بلکہ خود وزیر اعظم عمران خان بھی اس سلسلے میں پیش پیش نظر آتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار یہ بھی کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ آمر بن گئے ہیں جب انہوں نے یہ بات کی تو ان کا اشارہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرف تھا کیونکہ باقی تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ یا تو ان کی پارٹی کے ہیں یا ان کی پارٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ اپنے اقدامات اور اشاروں کے ذریعے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں، وہ آئے دن ملک کے دیگر صوبوں کے دورے کرتے رہتے ہیں مگر سندھ کے دورے انہوں نے اب تک برائے نام یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ’’بہ حالت مجبوری‘‘ کئے اور یہ بات بھی کم قابل توجہ نہیں ہے کہ اگر انہوں نے سندھ کا دورہ کیا تو اول تو وزیر اعلیٰ کو اطلاع نہیں دی جاتی کہ وزیر اعظم فلاں دن کراچی کے ہوائی اڈے پر اتر رہے ہیں اور وہ بھی آکر ان کا استقبال کریں علاوہ ازیں وزیر اعظم نے ان دوروں میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرنے سے بھی گریز کیا۔اس قسم کے اقدامات کا نہ فقط سندھ کے سیاسی حلقوں بلکہ عام لوگوں نے بھی سخت نوٹس لیا۔ اس سلسلے میں سندھ کے ممتاز اسکالر نجی ملاقاتوں میں یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ یہ رویہ تو 1940 ء میں لاہور میں پاکستان کے حق میں منظور کی گئی قرارداد کی کھلم کھلا توہین ہے کیونکہ اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جو ریاستیں شامل ہوں گی وہ Autonoumous یعنی خود مختار ہوں گی مگر پاکستان بنتے ہی صوبوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ پاکستان کی تاریخ کی ایک دردناک داستان ہے۔ اس سارے عرصے کے دوران صوبوں کو خود مختار بنانے کی بجائے صوبوں کی حیثیت برائے نام تھی‘ اس سلسلے میں گورنر جنرل ملک غلام محمد جیسے حکمرانوں کے دور کی مثال دی جاسکتی ہے‘ بعد میں حکمران مغربی حصے کے صوبوںکی حیثیت ختم کرکے ون یونٹ کے نام پر مغربی پاکستان وجود میں لائے اور مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان Parity نافذ کردی گئی حالانکہ مشرقی پاکستان کی آبادی سارے مغربی حصے سے تو زیادہ تھی مگر پنجاب کی آبادی تو ایک اندازے کے مطابق مشرقی پاکستان کی آبادی کاشاید ایک چوتھائی بنتی تھی۔ ان سارے اقدامات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ملک سے الگ ہوگیا‘ پھر یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ مارشل لائوں کے دور شروع ہوئے تو اس دور میںنہ صوبے خود مختار تھے اور نہ ہی ملک میں حقیقی وفاق تھا اور نہ ہی ملک میں حقیقی جمہوریت تھی‘ اس ساری صورتحال کا توڑ 18 ویں آئینی ترمیم ہے‘ اس کی ایک مثال تو 18 ویں آئینی ترمیم کی ابتدائی شق ہے۔جس میں کہا گیا ہے۔

And Whereas the people of Pakistan have relentlessly struggled for democracy and for attaining the ideals of a Federal, Islamic, Democratic, Parliamentary and modern progressive welfare state, wherein the rights of the citizens are secured and the provinces have equitable share in the federation.

یہ شق پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اگر اس شق پر من و عن عمل ہوجائے تو پاکستان آج ایک مثالی جمہوری‘ وفاقی اور ترقی پسند فلاحی ریاست کے طور پر جانا جائے گا مگر افسوس تو یہ ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو منظور ہوئے اتنا عرصہ ہوگیا ہے مگر اس شق پرآج تک عمل نہیں کیا گیا۔ آج بھی ملک کے نظام کا جائزہ لینے پر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس شق کے تحت آج تک ایک بھی تبدیلی نہیں ہوئی میں یہاں اس آرٹیکل کی فقط دو آخری سطور کا ترجمہ پیش کررہا ہوں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان ایک ایسی جدید‘ ترقی پسند‘ فلاحی ریاست بنے گا جس میں سارے شہریوں کے حقوق محفوظ ہوں گے اور وفاق میں صوبوں کے مساوی حقوق ہوں گے‘‘۔ اب ذہن سوال کرتا ہے کہ کیا اس وقت پاکستان کے سارے شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں اور کیا وفاق میں سارے صوبوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ 18 ویں ترمیم میں توڑ پھوڑ کرنے کے بجائے سب سے پہلے اس ابتدائی آرٹیکل پر عمل کیا جائے۔ 18 ویں ترمیم کے آرٹیکل 12 (جی) میں اس ابتدائی آرٹیکل کو مزید وضاحت سے پیش کیا گیا ہے‘ اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ :

12(g) The shares of the provinces in all federal services, including autonomous bodies and corporations established by, or under the control of, the Federal Government, Shall be secured and any omission in the allocation of the shares of the provinces in the past shall be rectified.

’’ساری وفاقی ملازمتیں بشمول خود مختار ادارے اور کارپوریشنز جو وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے ہوں یا وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہوں‘ میں صوبوں کے حصے محفوظ ہوں گے اور اگر ماضی میں صوبوں کے حصے شمار نہیں کئے گئے تو ان کی درستی کی جائے گی‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین