• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ردا بشیر، ظفروال

آج کافی عرصے کے بعد موسم نے انگڑائی لی حبس اور گرمی کی شدت میں واضح کمی نظر آئی اور جابجا آسمان پر گہری کالی بدلیاں رقص کرتی دکھائی دیں۔ جو کہ پچھلے کچھ دنوں سے مفقود تھیں۔۔۔ موسم اچھا ہو تو طبیعت پر بھی مثبت اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں اور پھر موڈ کو جلا بخشنے کے لئے چائے کا کپ بھی حاضر خدمت تھا کہ، اچانک!کان کھڑے ہو گئے۔ خبریں پڑھنے والی کوئی خبر نشر کر رہی تھی۔۔ "کہ لاہور کے ایک اسکول میں طالبہ کو استاد کی جانب سے ہراساں کیا جانے کا الزام"خبر سنے کتنا وقت گزر گیا لیکن میرا دماغ یہیں الجھا ہوا تھا۔ تہہ در تہہ اور غلاف در غلاف گتھیاں سلجھانے میں مصروف… یہ اپنی نوعیت کی پہلی یا انوکھی داستان نہیں تھی۔ بہرحال معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو روزانہ مستقل بنیادوں پر طرح طرح کے چیلنجر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روز تمہارا طرح طرح کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔ 

پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں منظر نامہ خاصہ سنگین ہے۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر معاملات معمول کا حصّہ ہیں۔ بعض اوقات جرم انتہائی سنگین ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عورت ٹھان لے تو کایا پلٹ سکتی ہے۔۔۔۔ مجھے اختلاف ہے ہر اس انسان سے جو کہتا ہے کہ عورت "صنف نازک" ہے۔ میں پوچھتی ہوں کہاں سے؟ اپنی وصع قطع سے، یا بولنے چالنے سے۔ صنف نازک سے مراد میں "نازکی" کو لیتی ہوں۔ 

عورت جیسی تو چٹان کوئی نہیں۔۔ یہ وقت پڑنے پر سیسہ پلائی دیوار کا روپ دھارتی ہے۔ وقت پڑنے پر پانی کی طرح ایک لمحے میں رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عورت اللّٰہ کی تخلیق کردہ تخلیقات میں سے ایک خوبصورت ترین تخلیق ہے۔ عورت کیسے پروان چڑھے گی یہ اس کی گھر کی تربیت اور خاندان کا رویہ طے کرتا ہے۔ 

اس کا باپ اور بھائی اسے یا تو شیرنی بنائے گا یا پھر ڈری سہمی ہوئی کونے میں کھڑی ہوئی بکری۔۔۔ انہیں مضبوط بناؤ اتنا کہ اپنے سامنے اپنے اوپر پڑنے والی گندی نظر ڈالنے والے کی ناخنوں سے آنکھیں نوچ نکالے۔ لوگوں کے خوف سے انہیں گھروں میں مقید مت کرو۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق حالات کا سامنا کرنا سکھاو۔ وہ گرے گی لیکن! گرے گی تو اٹھے گی نا۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ بیٹیاں جوان ہو تو دیواروں کو اونچا نہ کرو بلکہ محبت، یقین اور اعتماد کی مقدار بڑھا دو۔ 

کچھ ادارے اور کچھ مدرسے ایسے بھی ہیں جو دوسرے اچھے اداروں اور مدرسوں کی عزت کو ملیا میٹ کر رہے ہیں۔ اساتذہ کا بچوں کو خوفزدہ کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ کچھ ہفتے قبل کا واقعہ ایک یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر کے پروفیسر جو یونیورسٹی میں ایک سے زیادہ عہدوں پر فائز تھے طالبہ کو ہراساں کرتے تھے۔ 

اس الزام میں انہیں اور 4مزید اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ یہ ایک انتہائی اچھا قدم اٹھایا گیا۔ طالب علموں کے دل شیر ہوئے کہ کوئی ان کی بھی دادرسی کرنے والا ہے۔ اساتذہ کے اچھے نام، عزت، مرتبہ اور جانوروں کو انسان بنانے والوں سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اس کی جانب سے اٹھائے گئے مناسب اقدامات کی وجہ سے کمزور اور بے بس طلباء کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ 

ان سب انسان نما جانوروں کی حرکات کی وجہ سے وہ سب کوششیں جو لوگوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے عرصہ دراز سے کیں ان سب سکینڈلز کی وجہ سے انہیں بری طرح دھچکا لگا۔خوف کی صورت میں اپنی بیٹیوں کی حوصلہ شکنی مت کرو بلکہ اس طرح کے درندوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ کا یقین دلاؤ تاکہ وہ گھٹن کا شکار نہ ہوں۔

تازہ ترین