شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن سے گزشتہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔آنے والے برسوں میں بھی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں تبدیلیاں جاری رہیںگی۔مملکت میں شہزادہ محمد بن سلمان سہ نکاتی فارمولے کے ذریعے اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ترقیاتی پروگرام رو بہ عمل لا رہے ہیں۔ولی عہد نے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ قائم کرکےبہت بڑا قدم اٹھایا ہے، سعودی شہریوں کو یقین ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کی سرپرستی میں ملک میں جو تبدیلیاں لا رہے ہیں ان کی بدولت ملک نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔
سعودی میڈیا کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکا، روس اور چین تینوں بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن سیاسی تعلقات کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔انہوں نے ایک طرف تو امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کیا تو دوسری جانب روس کے ساتھ سیاسی محاذ پر تعلقات کو نیا موڑ دیا ہے جبکہ تیسری جانب چین کےساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو نقطہ عروج تک پہنچا دیا۔ ولی عہد نے متوازن پالیسی اپنا کر سعودی دارالحکومت ریاض کو عالمی برادری سے کچھ اس طرح جوڑ دیا ہے کہ مشرق اور مغرب کے اہم فیصلوں میں ریاض کو شامل کیا جارہا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کثیر جہتی سماجی اصلاحات کی پالیسی پر گامزن ہیں۔انہوں نے کئی قوانین و ضوابط میں ترامیم کروائیں۔ مستقبل کے لیےنئی منصوبہ بندی کی۔مبصرین کا کہناہے کہ سعودی عرب میں مقامی شہریوں اور مقیم غیرملکیوں کی زندگی پر سماجی اصلاحات کے خوشگوار اثرات مرتب ہورہے ہیں۔سعودی شہری بڑی تعداد میں سیر و سیاحت کے لیے بیرون ملک کا رخ کیا کرتے تھے اب منظر نامہ بدلنے لگا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں سعودی سالانہ تعطیلات اندرون ملک پرکشش سیاحتی مراکز و مقامات پر گزارنا پسند کرنے لگے ہیں۔
مقامی شہری اس تبدیلی سے بے حد خوش ہیں کہ ولی عہد نے ملک کا ماحول وہی بنادیا جو اب سے چند عشرے قبل تھا۔ جب سعودی شہری معمول کی زندگی گزارا کرتے تھے۔کورونا وباء سے قبل مملکت میں عجائب گھر، سینما گھر اور غنائی تقریبات کا سلسلہ چل رہا تھا درمیان میں یہ منقطع ہوگیا تھا جو اب بحال کردیا گیا ہے۔ریاض، جدہ اور ملک کے دیگر شہروں کے باشندے فنون و ثقافت کے ستاروں کو اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں۔سعودی شہری بڑے فخر سے اس بات کا تذکرہ کرنے لگے ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے جراتمندانہ فیصلے کی وجہ سے 35 برس کے بعد معاشرے میں سینما گھر بحال ہوئے۔2030ء تک 300 سینما گھر کھل جائیں گے۔
خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے، خاندان کے سربراہ کی منظوری کے بغیر سفر کی اجازت، خاندان اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں وسیع البنیاد کردار ادا کرنے کے مواقع ملنے پر بھی خوشی کا اظہار کیا جارہاہے۔ ولی عہد نے سعودی فوجی مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹریوں کی بنیاد بھی ڈالی۔سعودی وژن کے مطابق تقریبا 13 بڑے پروگرام روبہ عمل لائے جارہے ہیں ان میں معیار زندگی بہتر بنانے کے پروگرام بھی شامل ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان نے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ قائم کرکےبہت بڑا قدم اٹھایا ہے ۔یہ 300 ارب ڈالر سے زیادہ اثاثوں کا پروگرام ہے۔
ان کا پروگرام ہے کہ یہ دنیاکے بڑے ریاستی انویسٹمنٹ فنڈز میں سے ایک ہو۔ وہ اس فنڈ سے بوئنگ، فیس بک، سٹی گروپ، ڈزنی، بینک آف امریکا اور بی بی کمپنی کو جوڑ رہے ہیں۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ان دنوں بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اعلی رابطہ کمیٹی کی صدارت کررہے ہیں۔حکومت نے کوروناوبا سے نمٹنے کے لیے 177 ارب ریال کے اقتصادی اور مالیاتی پروگرام دیے ہیں۔یہ مملکت کی کل قومی پیداوار کا 9 فی صد ہیں۔اس رقم میں سے 9 ارب ریال نجی اداروں کے سعودی ملازمین کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کی ملٹری انڈسٹریز کے جنرل اتھارٹی نے ڈائریکٹو ریٹ جنرل اور جنرل ملٹری انڈسٹری فائونڈیشن کے درمیان مقامی سطح پر بکتر بند گاڑیوں کی تیاری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ معاہدے کے تحت بکتر بند گاڑیوں کو’’الدھناء‘‘کا نام دیا گیا ہے۔جنرل کارپوریشن برائے ملٹری انڈسٹریز نے سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر دیسی ساختہ بکتر بند اور بھاری فوجی گاڑیوں کی تیاری کو مقامی صنعت میں شامل کرنےکے معاہدے کی منظوری دی۔
اس منصوبے کا مقصد فوجی صنعت بالخصوص بکتر بند گاڑیوں کو مقامی سطح پر اعلیٰ عالمی معیار کے مطابق تیار کرنا ہے۔ریاض میں جنرل اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں ’’الدھناء‘‘ گاڑی کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں جنرل اتھارٹی برائے ملٹری انڈسٹریز کے گورنر اور ملٹری انڈسٹریز کے جنرل آرگنائزیشن کے سربراہ انجینئر احمد بن عبد العزیز العوھلی، بارڈر سیکیورٹی گارڈ کے ڈائریکٹر جنرل جنرل عواد بن عید البلوی اور ملٹری انڈسٹری کارپوریشن کے سربراہ انجینیر محمد بن حمد الماضی نے دستخط کیے۔
فوجی اتھارٹی برائے ملٹری انڈسٹریز کے گورنر نے بتایا کہ مقامی طور پر نئی ’’الدھناء‘‘گاڑی کی تیاری کا مقصد قومی ترجیحات کے حصول ، فوجی صنعتی معاہدوں کے قیام، مقامی مینوفیکچررزکی مدد، انہیں بااختیار بنانا، اس کے لیے قانون سازی کرنا ، مقامی کمپنیوں کو معروف کمپنیوں کی حیثیت سے ترقی دینے کے ساتھ ساتھ بڑی قومی کمپنیوں کو فروغ دینا اور فوجی سازو سامان کی تیاری کےاخراجات میں سے 50 فی صد کو مقامی سطح پر استعمال کرنے کا ہدف حاصل کرنا ہے۔